• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور مسجد خودکش دھماکا، 63 شہید، نماز ظہر کے دوران پولیس لائن میں پہلی صف میں کھڑے بمبار نے خود کو اڑالیا

پشاور (نمائندہ جنگ/ ایجنسیاں، جنگ نیوز) پشاور کی پولیس لائنز میں واقع مسجد میں خودکش دھماکے کے نتیجے میں پولیس اہلکاروں سمیت 63 افراد شہید جبکہ 150سے زائد زخمی ہوگئے، ہلاکتوں میں مزید اضافہ کا خدشہ ہے، پولیس کے مطابق مسجد میں باجماعت نماز ظہر ادا کی جا رہی تھی جسکے دوران پہلی صف میں کھڑے خود کش حملہ آور نے خود کو دھماکے سے اڑا لیا، جس سے مسجد کی چھت گر گئی اور ایک حصہ شہید ہوگیا، شہید ہونے والوں میں پولیس افسر، پیش امام اور خاتون شامل ہیں، دھماکے کے وقت 400 پولیس اہلکار موجود تھے، شہداء میں زیادہ تر سیکورٹی اہلکار تھے، واقعے کے بعد ریسکیو 1122کے اہلکاروں نے زخمیوں اور لاشوں کو مسجد سے نکال کر اسپتال منتقل کیا، دھماکے کے بعد پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال سمیت تمام بڑے اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کر دی گئی اور خون کے عطیات کی اپیل کی گئی، واقعے کے مقام کو سکیورٹی اہلکاروں نے سیل کردیا، رات گئے تک ملبے میں دبے ہوئے لوگوں کو نکالنے کیلئے امدادی کارروائی جاری تھیں، ضلعی انتظامیہ کے مطابق دھماکے میں 10کلو سے زائد دھماکا خیز مواد استعمال کیا گیا، وزیر دفاع خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ حملہ آور ایک دو دن پہلے سے مسجد میں موجود تھا، تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) نے خودکش حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے خالد خراسانی کے قتل کا ’بدلہ‘ لیا ہے، رات گئے ترجمان طالبان اپنے بیان سے منحرف ہوگئے اور انہوں نے کہا کہ یہ ہماری پالیسی نہیں کہ ہم مساجد اور مذہبی مقامات کو نشانہ بنائیں۔ حملے سے ہمارا تعلق نہیں۔سی سی پی او کا کہنا ہے کہ پولیس لائن میں ایسا واقعہ سکیورٹی کوتاہی ہے،دھماکہ کی تحقیقات کے لئے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے افسروں اور پولیس کے افسروں نے جائے وقوعہ کامعائنہ کیا، دھماکہ خیز مواد کے نمونے حاصل کئے،تحقیقاتی ٹیموں نے پولیس لائنز کی جانب آنے والے تمام راستوں سے سی سی ٹی وی ریکارڈنگ حاصل کرلی ہے اور تحقیقات شروع کردی ہیں ، نگراں وزیر اعلیٰ کےپی محمد اعظم خان نے افسوسناک واقعے پر صوبے میں ایک روزہ سوگ کا اعلان کیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق پولیس لائنز پشاور کی مسجد میں نماز ظہر کے دوران خودکش دھماکے میں امام مسجد اور پولیس اہلکاروں سمیت 63 افراد شہید ہوگئے جبکہ 150سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں، جن میں سے 15 سے زائد کی حالت تشویشناک ہے، دھماکے سے مسجد کی دومنزلہ عمارت کر گئی، اب بھی متعدد افراد کے ملبے تلے دبے ہونے کا خدشہ ہے، بھاری مشینری سے ریسکیو آپریشن جاری ہے۔ پشاور کے لیڈی ریڈنگ اسپتال نے دھماکے میں شہید اور زخمی افراد کی فہرست جاری کردی ہے۔ شہداء میں 5 سب انسپکٹرز، مسجد کے پیش امام صاحبزادہ نور الامین ، ایک خاتون اور دیگر افراد شامل ہیں۔ خاتون مسجد سے متصل پولیس کوارٹر میں رہاش پذیر تھی۔ اسپتال انتظامیہ کا کہنا ہے کہ تین جاں بحق افراد کی شناخت ابھی نہیں ہوسکی ہے۔ ریسکیو کے مطابق پشاور کے علاقے صدر پولیس لائنز میں مسجد کے اندر دھماکا ہوا، دھماکے کی آواز اتنی شدید تھی کہ دور دور تک سنی گئی جس میں متعدد افراد زخمی ہوئے جب کہ دھما کے کے بعد علاقے میں فائرنگ کی آوازیں بھی سنی گئی ہیں۔ ریسکیو کا کہنا ہےکہ دھماکے کے بعد ریسکیو اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور زخمیوں کو قریبی اسپتال منتقل کیا گیا جبکہ قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکار بھی موقع پر پہنچ گئے، سکیورٹی اہلکاروں نے علاقے کو سیل کردیا۔ انتظامیہ لیڈی ریڈنگ اسپتال کا کہنا ہے کہ اسپتال میں خون کی اشد ضرورت ہے، شہریوں سے اپیل ہے کہ خون کے زیادہ سے زیادہ عطیات دیے جائیں۔ ڈپٹی کمشنر کےمطابق لیڈی ریڈنگ اسپتال میں زخمیوں کو او نیگیٹو خون کی اشد ضرورت ہے لہٰذا او نیگیٹو خون والے حضرات جلد از جلد خون عطیہ کریں۔ ذرائع کے مطابق دھماکے سے مسجد کی چھت نیچے آنے کی وجہ سے متعدد افراد کے ملبے تلے دبے ہو نے کا بھی خدشہ ہے جنہیں نکالنے کیلئے کرین منگوالی گئی ہے۔ ذرائع کے مطابق پولیس لائنز صدر کا علاقہ ریڈزون میں ہے جو ایک حساس علاقہ تصور کیا جاتا ہے جسکے قریب حساس عمارتیں بھی ہیں جبکہ سی ٹی ڈی کا دفتر بھی پولیس لائنز میں ہی ہے، اس علاقے میں پشاور پولیس کے سربراہ اور ڈی آئی جی سی ٹی ڈی کا دفتر بھی ہے۔ دریں اثناء جیو نیوز کے پروگرام ’’کیپٹل ٹاک‘‘ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ پشاور دھماکے کا سہولت کار پولیس لائنز کے اندر کا آدمی تھا، پولیس کا خیال ہے خود کش حملہ آور ایک دو دن سے وہیں رہ رہا تھا اس نے ریکی کی اور موقع دیکھ کر دھماکا کیا، خودکش حملہ آور نماز میں پہلی صف میں تھا وہاں اس نے دھماکا کیا، دھماکے کی وجہ سے مسجد کے پرانے حصے کی چھت منہدم ہوگئی، پشاور پولیس لائنز مسجد پر حملہ سیکورٹی کی ناکامی ہے، آئی جی پشاور نے بتایا کہ ہزار سے ڈیڑھ ہزار افراد پولیس لائنز میں رہتے ہیں، پولیس کا خیال ہے حملہ آور پولیس لائنز میں ہی کسی شخص سے رابطے میں تھا، خیال ہے حملہ آور ایک دو دن سے وہیں رہ رہا تھا۔انہوں نے کہا کہ پشاور مسجد پر حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی خراسانی گروپ نے قبول کی ہے، کوئی مسلمان مسجدوں پر حملہ نہیں کرسکتا ہے، مسجدوں میں نمازیوں پر حملے تو اسرائیل اور ہندوستان میں بھی نہیں ہوتے۔ تحریک طالبان پاکستان( ٹی ٹی پی ) نے سوشل میڈیا پر پشاور خود کش دھماکے کی ذمہ داری قبول کرلی۔ ٹی ٹی پی نے دعویٰ کیا کہ یہ خود کش دھماکہ ہم نے کیا ہے اور یہ حملے جاری رہیں گے۔تحریک طالبان پاکستان کے عہدیدار سربکف مہمند اور عمر مکرم خراسانی نے بیان میں کہا گیا کہ یہ دھماکہ ٹی ٹی پی کے عسکریت پسند خالد خراسانی کی گزشتہ سال ہلاکت کا ’بدلہ‘ تھا۔ پشاور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے سی سی پی او اعجاز خان نے کہا کہ پولیس لائن میں ایسا واقعہ ہونا سکیورٹی کوتاہی ہی لگتا ہے، دھماکے سے مسجد کا مرکزی ہال زمین بوس ہوگیا ہے تاہم دھماکے سے متعلق کچھ بھی کہنا قبل از وقت ہوگا۔ نگران وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا اعظم خان نے پشاور دھماکے کے بعد اسپتالوں میں ایمرجنسی نافذ کرنے اور امدادی سرگرمیاں تیز کرنے کی ہدایت کردی۔ نمائندہ جنگ کے مطابق دھماکہ اتنا زوردار تھاکہ اسکی آواز دور دورتک سنی گئی اور علاقے میں شدیدخوف وہرا س پھیل گیا دھماکہ کے فوری بعد امدادی ٹیمیں،پولیس اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے سینکڑوں اہلکار موقع پر پہنچ گئے اور علاقے کو گھیرے میں لے گیا۔ دھماکہ کے بعد ملبے تلے پھنس جانے والے درجنوں افراد کو نکالنے کے لئے چارعدد کرین موقع پر پہنچ گئے اور انہوں نے چارگھنٹوں کی جدوجہد کے بعدزخمیوں کو شہید افراد کو نکال لیا۔ دھماکہ کی اطلاع ملنے پر گورنر خیبر پختونخوا، سابق اسپیکر اور صوبائی وزراء موقع پر پہنچ گئے۔ انسپکٹر جنرل آف پولیس خیبر پختونخوا معظم جاہ انصاری دھماکہ کے دو گھنٹے بعد جائے وقوع پر پہنچے،پولیس لائنز پشاور میں پشاور پولیس کی نفری، ایف آر پی، انوسٹی گیشن اور کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کی سینکڑوں اہلکار موجود ہوتے ہیں اسی طرح سی سی پی او پشاور،ایس ایس پی آپریشنز پشاور، ایس ایس پی انوسٹی گیشن، کمانڈنٹ ایف آر پی اور ڈی آئی جی کاؤنٹر ٹیررازم ڈیپارٹمنٹ کے دفاتر بھی ہیں۔ دھماکہ کی اطلاع صوبہ بھرمیں جنگ کی آگ کی طرح پھیل گئی اور سینکڑوں کی تعداد میں لوگ اپنے پیاروں کی تلاش کے لئے پولیس لائنز پشاور پہنچ گئے تاہم قانون نافذ کرنے والے اداروں نے انہیں پولیس لائنز پشاور کے اندرجانے نہیں دیا جس پر شہید اور زخمی افراد کے لواحقین اورقانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کے مابین وقفے وقفے سے تلخ کلامی بھی ہوئی۔ شہید ہونے والوں میں انوسٹی گیشن ایس ایچ او تھانہ پہاڑی پورہ انسپکٹر دوران شاہ شامل ہیں۔

اہم خبریں سے مزید