• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پشاور میں دہشت گرد حملے سے سیکیورٹی خدشات مزید سنگین

اسلام آباد (اے ایف پی) پشاور پولیس لائن کی مسجد میں خودکش دھماکے نے پاکستان کے بڑھتے سیکورٹی خدشات کو مزید سنگین کردیا ہے۔

پاکستان میں بدامنی کا تعلق پڑوسی ملک افغانستان سے جوڑا جاتا ہے۔ دونوں ممالک کے درمیان بے قاعدہ سرحد عسکریت پسندوں کی محفوظ پناہ گاہ ہے۔ تحریک طالبان پاکستان دوبارہ سر اٹھا رہی ہے جس نے اپنی حکمت عملی تبدیل کرکے پاکستان سے جنگ بندی معاہدہ ختم کر دیا ہے۔

 اب وہ سیکورٹی اہلکاروں اور شہریوں کو نشانہ بنانے لگے ہیں اسلامک اسٹیٹ خراساں بھی متحرک ہوگیا ہے۔ جس نے گزشتہ سال پشاور کی اہل تشیع کی مسجد میں خودکش دھماکہ کرکے 64 افراد کو قتل کر دیا تھا۔

 بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کے سیکورٹی فورسز پر حملوں میں اضافہ ہوگیا ہے۔ ایک سیکورٹی ماہر امتیاز گل کے مطابق پاکستان میں دہشت گردوں کے فرنچائز گروہ سرگرم ہیں جو یکساں مقاصد کےلیے مختلف ناموں سے کام کرتے ہیں۔

جن کے مقاصد پاکستان میں خوف اور افراتفری کو ہوا دینا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ نے دعویٰ کیا ہے کہ کابل میں طالبان کے برسراقتدار آنے کے بعد پاکستان کے اندر دہشت گرد حملوں میں 50 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کا قیام 2007 میں عمل پذیر ہوا جنہوں نے پاکستان کی تاریخ کے ہولناک دہشت گرد حملے کیے۔

 2014ء میں آرمی پبلک اسکول پر حملے میں 150 بچے شہید ہوئے تھے۔ اسلامک اسٹیٹ خراساں کا قیام 2015ء میں افغانستان کے مشرقی صوبے ننگرہار میں ہوا تھا۔ جو بھارت، ایران اور وسط ایشیا تک اسلامی خلافت قائم کرنے کا عزم رکھتی ہے۔

 ایک تخمینے کے مطابق ان کی تعدا د1500سے 4000کے درمیان ہے۔ پاکستان کا طالبان کے حق میں مخالفت میں ملا جلا کردار رہا اورڈبل گیم کھیلنے کا الزام بھی لگا۔

اہم خبریں سے مزید