• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

ایک طرف مالی بحران، دوسری طرف لگثری گاڑیوں کیلئے فنڈز

حکومت آزاد کشمیر کی جانب سے ایک طرف مالی خسارے اور وفاقی حکومت کا بجٹ پر کٹ کا شور اور آزاد کشمیر میں شدید مالی بحران کے باجود دوسری جانب ایک ارب روپے سے زائد کی نئی اور لگژری گاڑیوں کی خریداری کے لئے فنڈز مہیا کرنے کی منظوری دے دی گی اس فضول خرچی کے دفاع میں اسمبلی فلور پر وزیر ٹرانسپورٹ نے اپوزیشن ممبر اسمبلی کے جواب میں نئی لگژی گاڑیوں کی خریداری پر نامناسب غیر تسلی بخش جواب دیتے ہوئے کہا میرے پاس اپنے پچاس رکشے ہیں میں ان کے بارے میں بتا سکتا ہوں لگژری گاڑیوں کے بارے میں وزیر اعظم خود ہی بتا سکتے ہیں اگر ممبران چائیں ایک ایک رکشہ انہیں دیے سکتا ہوں۔

وزیر اعظم سردار تنویر الیاس نے کہا نئی گاڑیاں ہماری ضروت ہیں اپوزیشن والوں کو بھی نئئ گاڑیاں مل سکتی ہیں آزاد کشمیر حکومت کی مالی بحران کے باوجود عیاشیاں اس حد تک پہنچ رہی ہیں جیسے کشمیر کے پہاڑوں سے سونے کی نکاسی شروع ہوگئی ہے سیاسی عدم استحکام کے باعث وزیر اعظم کے اوپر عدم اعتماد کی لٹکتی تلوار نے بلیک میلنگ کا ایک اور دروازہ کھول دیا ہے مختلف محکمہ جات میں خلاف میرٹ تقرریاں عروج پر ہیں منصوبہ جات پر تعمیراتی کام بند پڑے ہیں محکمہ تعمیرات عامہ شاہرات عمارات پبلک ہیلتھ اور مینٹیننس میں 2019 کے بعد سالانہ مرمتی کے خلاف تعینات سینکڑوں ورک چارج ملازمین کو فارغ کر دیاہے ان چھوٹے ملازمین کی فراغت سے سینکڑوں افراد پر مشتمل خاندان متاثر ہورہے ہیں ان افراد کے گھروں میں نوبت فاقوں تک پہنچ گئی ہے فارغ ہونے والوں میں مساجد کے مؤذن جن میں اکثریت حافظ قرآن ہیں سمیت قلی خادم اور سیئر پلمبر ہیلپر شاملِ ہیں جو بمشکل گزارہ کررہے تھے۔ 

مہنگائی کی شدید لہر میں ان افراد کا گزارا کیسے ہو گا اس کا جواب ووٹ کی پرچی پر منتخب ہونے والے حکمرانوں کے پاس کوئی نہیں ان عارضی ملازمین کو تنخواہ کی ادائیگی تعمیراتی کام کے باعث ہوتی تھی اب یہ لوگوں کیلئے متبادل روزگار کے کوئی ذرائع موجود نہیں ہیں ملک بھر کی طرح آزاد کشمیر میں بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے والوں کی کثیر تعداد بھیک مانگنے پر مجبور ہو رہی ہے حکومتی عہدیدار اگر کفایت شعاری اپنائیں بہت سی عوامی مشکلات کا ازالہ ہوسکتا ہے آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی کا اجلاس بغیر قانون سازی کے دو ماہ تک جاری ایک دن اجلاس کرکے ایک ہفتے کیلئے ملتوی کر دیا جاتا رہا تاکہ اراکین اسمبلی اور دیگر ملازمین کے ٹی اے ڈی اے بنتے رہے ایک دن چار کروڑ روپے میں پڑتا ہے اس طرح اگر ایک ماہ اجلاس رہے گا ڈیڑھ ارب روپے کے اخراجات آتے ہیں حکومتی فضول خرچیوں سے وزرا اور اراکین اسمبلی کروڑوں روپے ماہانہ فوائد حاصل کررہے ہیں جبکہ عوام کی مشکلات میں روز بروز اضافہ ہوا رہا ہے دو وقت کی روٹی مشکل ہوگئی ہے۔

قانون ساز اسمبلی نے گزشتہ پونے دو سالوں کے دوران آزاد کشمیر کی عوام کے مفاد میں ایک بھی قانون سازی نہیں کی جس سے غریب طبقہ کی مشکلات کم ہوں جبکہ اجلاسوں کے نام پر اربوں روپے کی مراعات حاصل کی گی ہیں حکمرانوں کی شہ خرچیوں کے باعث مہنگائی کے اثرات عام آدمی مزدور کسانوں کم آمدن والوں پر ہیں جبکہ حکمرانوں کی مراعات میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے آزاد کشمیر وفاق صوبوں میں مراعات یافتہ افراد نے ملک کی غریب اور مہنگائی سے پسی ہوئی عوام کے لیے نہ بچت کفایت شعاری اپنائی نہ تنخواہ مراعات پر کٹ لگایا بلکہ روز بروز کمائی کے نئے نئے زرائع تلاش کررہے ہیں جس کے باعث مہنگائی کا سارا بوجھ عام آدمی پر پڑ رہا ہے۔ 

آزاد کشمیر حکومت نے ان ایک ہزار چھ سو ساٹھ ملازمین کو دوبارہ بحال کردیا جنہیں تحریک انصاف کی حکومت نے ن لیگ کے دور حکومت میں اس وقت کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان نے ایڈھاک ایکٹ کے زریعے لگایا تھا ایک سال تک ان ملازمین کو فارغ رکھنے کے بعد انکے لئے امید کی ایک کرن نظر آئی ہے ادھر پاکستان آزاد کشمیر اور دنیا بھر میں مقیم پاکستانی اور کشمیری5 فروری ایک مرتبہ پھر تجدید عہد کے دن کے طور پر منایا جائے گا۔

75 سال گزرنے کے باوجود جدوجہد آزادی پوری آب وتاب سے جاری رکھے ہوئے ہیں آج سے اکتیس سال پہلے جماعت اسلامی کے امیر مرحوم قاضی حسین احمد کی اپیل پر یہ دن پورے جوش و جذبہ کے ساتھ یکجہتی کے طور پر منایاگیا تھا 5اگست 2019ء کے سانحہ کے باوجود ہندوستان کشمیر میں اپنے قدم جمانے میں ناکام ہے، کشمیری عوام نے کبھی بھی ہندوستان کا ناجائز قبضہ قبول نہیں کیا اور آج بھی اس ناجائز اور جبری قبضہ کے خلاف نہتے کشمیری عوام صبر واستقلال کے ساتھ نمبرد آزما ہیں۔

جان ومال، عزت اور عصمت کی قربانیاں دینے کے باوجود کشمیری ہندوستان کے ساتھ رہنے کے لیے تیار نہیں ہیں پاکستان اور ہندوستان کے درمیان ہونے والے وہ تمام مذاکرات ناکام ہوئے جن میں کشمیریوں کو بھی اعتماد میں لیا گیا اور ایسے کوئی بھی مذاکرات جن میں کشمیری شامل نہ ہوں دیر پا اور قابل عمل نہیں ہوسکتے اور نہ ہی مسئلہ کشمیر کے حوالے سے کشمیریوں کے بغیر ہونے والے مذاکرات قابل عمل یا قابل قبول ہوسکتے ہیں کشمیریوں نے طویل جدوجہد کی ہے جدوجہد منزل کے حصول تک جاری رکھیں گے بھارت کے زیر قبضہ جموں کشمیر میں انسانی حقوق کی بدترین پامالیوں، ریاست کی جبری تقسیم اور 5 اگست 2019 سے آج تک 1259فوجی محاصرے اور ریاستی جبر کے سیاہ ترین دنوں میں پاکستان کی حکومت اور سیاسی قیادت کی مسلسل خاموشی ریاست کے مقبوضہ حصے کے ڈیڑھ کروڑ عوام کیلئے انتہائی تکلیف دہ اور مایوس کن ہے حکومت پاکستان اور اسکے قومی اداروں کی یہ آئینی اور قومی زمہ داری ہے کہ وہ بھارتی سامراج، ظلم اور بربریت کیخلاف فعال ترین مزاحمتی کردار ادا نہیں کر رہے ایک طرف نریندرمودی کی سفاک حکومت دس لاکھ غاصب فوجیوں کے زریعے نہتے کشمیری عوام کو آزادی حقوق اور انصاف مانگنے کے بدلے قتل کررہی ہے لیکن کشمیری اپنی آزادی کے سورج کو طلوع ہوتا ضرور دیکھیں گے۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید