• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

میزبان: محمد اکرم خان

ایڈیٹر، جنگ فورم، کراچی

رپورٹ: سلیم اللہ صدیقی

شریک گفتگو

ڈاکٹراکبر زیدی (ڈائریکٹر، آئی بی اے، کراچی)

عارف حبیب (چیئرمین، عارف حبیب گروپ)

امین ہاشوانی (بزنس مین، سوشل سائنٹسٹ، اینالسٹ) 

ڈاکٹر اکبر زیدی
ڈاکٹر اکبر زیدی

ملکی معیشت صرف گھمبیر نہیں بہت خطرناک جگہ پر کھڑی ہے، ڈیفالٹ یا کنگال ہونے کے کئی مراحل ہیں، ہم دوائیاں نہیں خرید سکتے صنعتوں کے لیے خام مال نہیں خرید سکتے، بیرون ملک زیر تعلیم بچوں کو فیس نہیں دے پاتے، ایل سیز نہیں کھلتی توان حالت سے ہم گزر رہے تو یہ طے ہوگیا کہ نیم ڈیفالٹ مقام پر پہنچ گئے ہیں، ہمارے حالات امریکا، چین یاکسی مالیاتی ادارے نے نہیں ہم نے خود خراب کئے ہیں، ہم ٹھیک سے ٹیکس ادا نہیں کرتے رقم ٹھیک جگہ استعمال نہیں کرتے کرپشن بہت زیادہ ہوچکی ہے، کوئی معاشی گروتھ نہیں ہورہی کوئی پیداواری کام نہیں ہورہا۔

ڈاکٹر اکبر زیدی

عارف حبیب
عارف حبیب

ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے بحران کی بنیادی وجہ یہی ہے۔ ڈالر کم ہونے کی بڑی وجہ میں ہماری ایکسپورٹ کا نہ بڑھنا ہے، ہمیں اپنے امپورٹ کے بل کو کم سے کم کرنا پڑے گا اگر ہم اپنے امپورٹ بل کو ایکسپورٹ بل پانچ سے چھ بلین ڈالرکے قریب لے آئیں تو کرنٹ اکاونٹ خسارے کو قابو کرسکتے ہیں، افغانی ہمارے ملک سے ڈالر خرید کر اپنی ضرورت پوری کررہے ہیں ،ہمارے ڈالر اسمگل ہورہے ہیں، توانائی کا استعمال کو کم کیا جائے دن کی روشنی میں کام کریں روپے کی قدر مزید کم نہیں کرنی چاہیے، بعض لوگ ایکسپورٹ بڑھانے کے نام پر ایسے مشورے دیتے ہیں جوٹھیک نہیں۔

امین ہاشوانی
امین ہاشوانی

عارف حبیب

پاکستا ن کے15 سرفہرست سوشل اکنامی انڈیکیٹرز کا جائزہ لیں جس میں صنفی تفریق، بچوں کی اموات، پانی کی ضرورت، ہمارا ٖجی ڈی پی وغیرہ پچھلے چالیس سال میں ریکارڈ سب میں منفی رہا، ہماری آبادی بہت تیزی سے بڑھ رہی ہے یہ بدترین بحران کی نشانیاں ہیں، کسی معاشی مشکل کی صورت میں مسئلہ غریبوں کو ہی ہوگا اشرافیہ کو فرق نہیں پڑے گا، ریفارمز نہ ہونے کی وجہ بڑی سادہ ہے، اسٹرکچرل ریفارمز طویل الیعاد منصوبے ہوتے ہیں جس کے لیے وقت درکار ہوتا ہے پھر شارٹ مدت میں قربانی دینی پڑتی ہے، ہمارے یہاں بڑے کام کے لیے عمل درآمد پر اتفاق رائے پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔

امین ہاشوانی

پاکستانی معیشت کو گھمبیر صورت حال کا سامنا ہے،ڈیفالٹ کی خبریں بہت زیادہ سننے کو مل رہی ہیں، حکومت امید دلارہی ہے کہ ریاستی ڈیفالٹ نہیں ہوگا لیکن کچھ ماہرین کا کہنا ہے کہ پاکستان ٹیکنیکلی ڈیفالٹ ہوچکا ہے جس کی وجہ ایل سیز کا نہ کھلنا ہے۔درآمدات میں مسائل کا سامنا ہے،اس پر گفتگو ہوگی،ڈالر کی کمی سے کیسے نمٹیں اسے کس طرح حاصل کرسکتے ہیں، کس طرح ڈالر کی بچت ہو،تاکہ ملک ڈیفالٹ سے محفوظ ہے، ہماری ایل سیز کھلتی رہیں درآمدات ہوتی رہیں تاکہ ہماری صنعتوں کاپہیہ چلتارہے، پچھلے دنوں جنگ نے صنعتوں کی حالت زار پر فورم کیا صورت حال وہاں بھی سنگین ہوچکی ہے۔ 

ان کا کہنا ہے کہ فروری میں کئی صنعتیں بند ہوجائیں گی کیوں کہ خام مال ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ سے نہیں مل رہا تو حکومت کی ایکسپورٹ پالیسی کیا ہونی چاہیے،خراب حالات کی وجہ سے سرمایہ کاری رک گئی ہے تو ڈالر کا آنابھی مشکل نظر آرہا ہے،نئے اعداوشمارکے مطابق ریمی ٹینس میں بھی کمی ہوئی ہے۔ اسی وجہ سے ہمارا آج کا موضوع ہے کہ اتنے خراب حالات میں پاکستان ایسا کیا کرے جس سے ہمارا مستقبل بہتر اور محفوظ ہوجائے،2023 میں ہماری معیشت کیسی رہے گی ،بجٹ سےپہلے اور بعد ہم کس مقام پر ہوں گے۔

ان تمام مسائل اور ان سے نمٹنے کے لیے جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا، اس موضوع کے لیے فورم میں ہمارے شریک گفتگو اکبر زیدی صاحب (ڈائریکٹر آئی بی اے کراچی)عارف حبیب صاحب( چیئرمین عارف حبیب گروپ) اور امین ہاشوانی (بزنس مین، سوشل سائنٹسٹ، اینالسٹ) نے اظہار خیال کیا،جنگ فورم کی رپورٹ پیش خدمت ہے۔

جنگ: جنگ فورم میں اپنی گفتگو کا آغاز اکبر زیدی سے کریں گے، دو ہزار 23 میں پاکستانی معیشت کہاں کھڑی ہوگی؟

اکبر زیدی: ملکی معیشت صرف گھمبیر نہیں بلکہ بہت خطرناک جگہ پر کھڑی ہے، جہاں ہم کہاں کھڑے اور سال دوہزار 23 میں کیا ہوگا، ہماری معیشت جس مقام پر ہے وہاں تک لانے میں کئی کردار ہیں،جس میں پی ٹی آئی اور پی ڈی ایم دونوں جماعتیں شامل ہیں سب گنہگار ہیں کسی نے کوئی ڈھنگ کی پالیسی نہیں اپنائی، محسوس ہورہا ہے ہم گہری کھائی میں گرنے والے ہیں، کچھ معاشی ماہرین کہتے ہیں کہ ہم ایک حد تک ڈیفالٹ کرچکے ہیں۔

ڈیفالٹ سے مراد یہ نہیں کہ دنیا اور عالمی مالیاتی اداروں کو اعلان کرکے بتایاجائے کہ ہم کنگال ہوچکے ہیں کیوں کہ دنیا ہماری مالی حالت سےپہلے ہی واقف ہے۔ ڈیفالٹ یا کنگال ہونے کے کئی مراحل ہیں، ہم دوائیاں نہیں خرید سکتے، اپنی صنعتوں کے لیے خام مال نہیں خرید سکتے، بیرون ملک زیرتعلیم بچوں کو فیس نہیں دے پاتے، ایل سیز نہیں کھلتی، تو ان سارے حالت سے ہم گزر رہےتو یہ طے ہوگیا کہ نیم ڈیفالٹ مقام پر پہنچ گئے ہیں ،اب نمٹنے کےلیے ہماری مرکزی حکمت عملی صرف بھیک مانگنا نظرآرہاہے۔

ہم آئی ایم ایف ،سعودی عرب،چین ،یو اے ای سے مدد کے نام پر بھیک مانگ رہے ہیں، یہ آج کی نہیں کافی عرصےسےہماری یہ ہی پالیسی ہے کہ ہمیں مانگنے پر پیسے کون دے گا،ملنے والے پیسے پر سود کیا ہوگا لیکن کن شرائط پر پیسےملیں گے اس حوالے سے ہماری کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔ دو ہزار 23 کا آغاز ہے اس لیے اگلے گیارہ بارہ مہینوں میں ہمارا کیا حال ہونے والا ہے یہ کہنا ناممکن ہے، اگر کسی طرح دوماہ گزر جائیں تو پھر اس سوال پر کچھ کہا جاسکے گا۔

ابھی جنیوا میں کانفرنس ہوئی تھی اس میں ہمیں آٹھ یا نوارب ڈالر آنے کی اطلاع دی گئی، ماضی میں اس طرح کے وعدے کئی مرتبہ ہوچکے ہیں ،دو ہزار دس برلن میں افغانستان کے لیے ایک کانفرنس میں 20بلین ڈالر کا اعلان ہوا تھا لیکن صرف دوبلین ڈالر آئے تھے۔ سابق وزیراعظم عمران خان کے دور میں سعودی ولی عہد شہزادہ بن سلمان پاکستان آئے تھے اور انہوں نے نویا دس ارب ڈالر دینے کا کہا تھا، شاید اس اعلان کا کچھ بھی نہیں ملا تھا، وعدے ایک سطح پر ہوتے ہیں۔

آئی ایم ایف کی ٹیم نےپاکستان آنا تھا وہ نہیں آئی فی الحال ان کی آمد کے کوئی آثار بھی نہیں ہیں، پورے حالات کا جائزہ لے کر سب اندازہ لگالیں ابھی ہم کہاں کھڑے ہیں۔ ممکن ہے سب ٹھیک ہوجائےدو ماہ بعد یہ صور ت حال نہ ہوپہلے بھی ایسے ہوچکا ہے اورہم نکل گئے ہیں۔ لیکن ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم آج کہاں کھڑے ہیں ہم کتنے برے اقتصادی معاشی حالات کاشکار ہیں جب ہم یہ سمجھ لیں گے تو پھریہ سوچا جائے گا کہ آگے کیا ہوگا۔

جنگ: ہم ان حالات سے کیسے نکل سکتے ہیں؟

اکبر زیدی: میرے خیال میں فوری پر نہیں نکل سکتے یہ غلط فہمی نکال دینی چاہیے، ہمارےحالات امریکا ،چین یاکسی مالیاتی ادارے نے نہیں ہم نے خود خراب کئے ہیں، ہم ٹھیک سے ٹیکس ادا نہیں کرتے ، رقم ٹھیک جگہ استعمال نہیں کرتے ،کرپشن بہت زیادہ ہوچکی ہے، کوئی معاشی گروتھ نہیں ہورہی،کوئی پیداواری کام نہیں ہورہا، ایکسپورٹ بڑھانے کی بات ہے وہ ایک دن میں نہیں بڑھ سکتی، اس کا اضافہ بتدریج دہائیوں میں جاکر ہوتا ہے۔ ویت نام، کوریا یا ملائیشیا ایک زمانے میں ہمارے ہی مقام پر کھڑے تھے لیکن منصوبہ بندی سے کوئی ستر سال میں کسی کو پچاس برس اور کوئی بیس سال بعد بہت آگے ہیں ،ہمارے یہاں ابھی کوئی حکمت عملی نہیں ہے۔

جنگ: کہاجاتا ہے کہ برائی جب اپنی انتہا پر پہنچ جائے تو پھر کوئی اچھائی کا پہلو نکلتا ہے تو کیا اب ہم بھی کوئی امید رکھیں؟

اکبرزیدی: میں آپ کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں اگر کوئی بہت بڑا معاشی بحران آجاتا ہے جو ابھی نہیں ہے اس صورت میں بہت ممکن ہے ،مثلا ابھی تین ملک ہیں جو اقتصادی حالت کے سبب خطرناک موڑ پر ہیں، سری لنکا، مصراور پاکستان ،سری لنکا ڈیفالٹ کرچکا ہے۔ تینوں ملکوں میں ایک چیز یکساں ہے وہ ہے فوج ،تینوں متاثرہ ممالک میں فوج کا کردار اور تعدا د بہت اہم ہے، سری لنکا نے آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد کہا ہے کہ ہم اپنی فوج کی ایک تہائی تعدادفوری طور پر کم کردیں گے کیوں کہ ان کے اخراجات بہت زیادہ ہیں اگلے دس سال میں مزید کم کریں گے۔

مصر اور پاکستان کی فوج ایک جیسی ہے، دونوں کے بڑے کاروبار ہیں، زمینیں ہیں جس میں سوسائٹیاں آباد کرکے کاروبار کرتے ہیں، کاروباری ،سیاسی، معاشی سارے مفادات میں شامل ہیں، مصر کے صدر السیسی خود فوجی ہیں،خراب معاشی صورت حال کے سبب آئی ایم ایف نے مصر سے کہا ہے کہ وہ اپنی فوج کو کم کرےتو ہمیں فوری طور پراخراجات کوکم کرنے کے لیے اسی طرح کے فیصلے کرنے چاہیے،ہمیں آج سے ہی فوج ہو یا بیورکریسی ان کے اخراجات کم کرنے کے لیے ان میں کمی کرنی چاہیے۔

عارف حبیب: بدقسمتی سے پاکستان پھر مشکل صورت حال سے گزرہا ہےہمارے ایکسٹرنل اکاوئنٹ کی صورت حال بہت بری ہے، ایکسٹرنل اکاوئنٹ سے مراد ہمیں ڈالر کی کمی کا سامنا ہے بحران کی بنیادی وجہ بھی یہی ہے۔ڈالر کم ہونے کی بڑی وجہ میں ہماری ایکسپورٹ کا نہ بڑھنا ہے، ایک عرصے سے ہم 20 سے تیس بلین ڈالر کے درمیان ہیں، اوسطا 25 بلین ڈالر کی ایکسپورٹ کررہے ہیں، ہمارےلیے مشکل چیز امپورٹ بل ہے، جب ہماری ایکسپورٹ20سے 22بلین ڈالر تھی تو امپورٹ تیس سے35 بلین ڈالرکا تھا، لیکن پچھلے سال امپورٹ بل 80سے 84بلین ڈالر ہوگیا ہے یہ بڑا فرق نمایاں ہے، پچھلے سات سال میں ہمارا کرنٹ اکاوئنٹ خسارہ جس میں امپورٹ ،ایکسپورٹ، ریمی ٹینس نئی انویسٹمنٹ اور لون شامل ہیں، اس کا فرق وہ ہی کرنٹ اکاونٹ کا خسارہ ہے۔

وہ پچھلےدس سال میں 82بلین ڈالر بنتا ہےاور ہمارے ٹوٹل فارن ایکسچیج کا قرض 100بلین ڈالر ہے،ہم نے اس دوران ڈالر میں38بلین ڈالر کا سود ادا کیا ہے۔38بلین ڈالر پھر 82 بلین ڈالر ہم نے ایسے ہی اڑا دیئے ہیں اور وہی پاکستان کا قرضہ ہے۔اس مشکل کافوری حل کیا ہے تو اس کا ایک ہی جواب ہےہمیں اپنے امپورٹ کے بل کو کم سے کم کرنا پڑے گا،ہمارا ماہانہ امپورٹ بل سات سے آٹھ بلین ڈالرکے درمیان ہے اور ماہانہ ایکسپورٹ اوسطاً پانچ سے چھ بلین ڈالر ہےتو اگر ہم اپنے امپورٹ بل کو ایکسپورٹ بل پانچ سے چھ بلین ڈالرکے قریب لے آئیں تو کرنٹ اکاونٹ خسارے کو قابو کرسکتے ہیں۔ بدقسمتی سے دیگر ملکوں میں جو سرمایہ کاری سے مددہورہی ہوتی ہے،جو پورٹ فولیوانویسٹمنٹ ،براہ راست فارن انویسٹمنٹ پاکستان میں انتہائی کم سطح پر ہے،پورٹ فولیو انویسٹمنٹ سن دوہزار سترہ اٹھارہ تک نو بلین ڈالرتھا آج وہ صرف چار سوملین پر ہے۔

روشن ڈیجیٹل اکاونٹ اچھا اٹھاتھا اس میں ساڑھے پانچ بلین ڈالر آئے تھے اب اس میں آوٹ اسٹینڈنگ صرف نوسو ملین رہ گئے۔ اس وقت ہمارے ریزرو انتہائی کم سطح پرچار اعشاریہ تین بلین ڈالر ہیں جو بدانتظامی کا نتیجہ ہے۔ابھی ڈیفالٹ کا بہت زیادہ ذکر ہورہا ہے، میں سمجھتا ہوں کہ کمرشل لون کی سطح پرٹیکنیکلی ڈیفالٹ کرگئے ہیں، ابھی حکومت کا100 بلین ڈالرکاساورن ڈیبٹ ہے اس میں 18بلین ڈالر کمرشل اور 82بلین ڈالرکا تعلق کثیرالجہتی، دوطرفہ، پیرس کلب اور آئی ایم ایف سے ہے۔82بلین ڈالر ڈیبٹ عموماًرول اوور ہوجاتا ہے، دنیا میں کوئی بھی ملک اپنا قرض ادا نہیں کرتا وہ اپنی جی ڈی پی کو بڑھاتے ہیں تو اس سے ان کی سروس کی صلاحیت بڑھ رہی ہوتی ہے، کمرشل ڈیبٹ کو بروقت اداکرناہوتا ہے وہ نہیں کرتے تو پھر آپ ڈیفالٹر سمجھے جاتے ہیں، ایل سیز نہ کھلنے کی وجہ لوگوں کی سمجھ کا فقدان ہے،آپ کو یاد ہوگا سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل نے کہا تھا کہ ہمیں اپنے پیر چادر کے مطابق پھیلانے ہوں گے، جتنے ڈالرآئیں گے اسی کے مطابق خرچ کرناپڑے گا۔

اب اگرحکومت ڈالر دیتی ہے تو اسے ریزرو میں کمی آتی ہے توحکومت نے مجبور ی میںامپورٹ کو کم کیا ہے۔ حکومت کو امپورٹ میں ترجیحات طے کرنی پڑے گی ڈالر بچانے کےلیے غیر ضروری اشیا کی امپورٹ کی حوصلہ شکنی کرنی چاہیے، اگر حکومت نے مشینری، آٹوموبائل ،اور سیل فون کی امپورٹ پر پابندی لگائی ہے تو میں اسے حکومت کا جائز اقدام سمجھتا ہوں ان حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فوری طور کہاں سے ڈالر بڑھا سکتے ہیں۔ نازک حالات میں ہمارے اپنے لوگ ہی ملک کے خلاف کام کررہے ہوتے ہیں، ابھی ہردوسراشخص ڈالر میں سرمایہ کاری کررہا ہے،سونا خرید رہا ہے چونکہ انٹربینک مارکیٹ اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی خریدو فروخت کی قیمت میں فرق ہے ،تولوگ ڈالر بینکنگ چینل سے بھیجنےکے بجائے ہنڈی اور حوالے کےذریعے بھیج رہے ہیں اس میں انہیں روپوں زیادہ فائدہ ہورہا ہے۔

ایکسپورٹر کی ریمی ٹینسس میں اجازت ہے کہ وہ90دن تک روک سکتے ہیں تو وہ بھی اس قانون کا فائدہ اٹھا تے ہوئے ڈالر روکے بیٹھے ہیں، اس چکر میں پاکستان کا تین بلین ڈالر پھنسا ہوا ہے۔ ابھی عالمی مارکیٹ گری ہوئی ہے مغرب میں بھی مندا چل رہا ہے، لہذا مال کی قیمتوں میں کمی آئی ہے اسی کے وجہ سے ہماری ایکسپورٹ کم ہوئی ہے،پچھلے چھ مہینوں میں ہمارا 16فیصد ریمی ٹینس کم ہوا ہے۔ایک اور بڑا المیہ ڈالر کی اسمگلنگ ہے، افغانی ہمارے ملک سے ڈالر خرید کر اپنی ضرورت پوری کررہے ہیں ،ہمارے ڈالر اسمگل ہورہے ہیں اور اوپن مارکیٹ سے خریدے جارہے ہیں ہمارے ڈالر وہ لے کر جارہے ہیں اسے انتظامی طور پر روکنا ضروری ہے، سابق دور حکومت میں جنرل باجوہ اور عمران خان نے مل کر اس پر کام کیا تھا تو اوپن مارکیٹ اور انٹربینک مارکیٹ کا فرق ختم ہوگیا تھا۔

لوگوں نے اپنے نقد ڈالر بھی جمع کرادیے تھےجس سے ریزرو میں کچھ اضافہ بھی ہوا تھا۔ ہمار ا نجی سیکٹر بین الاقوامی مارکیٹ سےڈالر نہیں لیتا ،ان کی ساری ضرورت اسٹیٹ بینک پوری کرتاہے اس کے برخلاف دیگر ممالک کے تاجر ڈالر بین الاقوامی مارکیٹ سے ڈالر اٹھا رہے ہوتے ہیں، پاکستانی تاجر روپے کی قدر مسلسل گرنے کی وجہ سے ایسا نہیں کرتے کیوں کہ انہیں وہاں سے مہنگا پڑتا ہےاس لیے حکومت ان تاجروں کو ایکسچیج فلیکچوئشن رسک کوریج ایک فیس کے طور پر دے ،میں نے یہ سفارشات وزارت خزانہ کے ذریعے بھیجی ہیں وہاں سے پوچھا گیا ہے کہ اس سے نقصان کتنا ہوگا تو میں نے انہیں بتایا کہ آپ کو نقصان نہیں فائدہ ہوگا کیوں کہ ابھی بھی آپ لوگوں کی ضرورت پوری کرنے کے لیے ڈالر قرض لے رہے ہیں پھر اس قرض پر انٹرسٹ دے رہے ہیں اس کے بعد روپے کی قدر گرنے کی قیمت بھی دے رہے ہیں، لہذا اس نئے اقدام سے آپ کا آف بیلنس شیٹ ہوجائے گا، حکومت کی بیلنس شیٹ پر جو ڈیبٹ ہے وہ کم نظرآئے گا اور وہ دباو پرائیوٹ سیکٹر پر چلا جائے گا۔ ہمارا سب سے بڑا امپورٹ بل پٹرولیم کا ہے ،پچھلے سال ہم نے27بلین ڈالر کی پٹرولیم مصنوعات خریدیں، اگر ہم جولائی تادسمبر2022 پٹرول قیمت کا جائزہ لیں تو وہ اوسطاًایک سوساٹھ ڈالر بنتا ہے اور ابھی قیمت گر کر78ڈالر پر چل رہا ہے، تو اگر اگلے چھ مہینے 75سے85 ڈالر تک قیمت رہتی ہے تو وہ ہمارے 20 فیصد بل کم کرنے میں مددگار ہوگا۔

اس کے ساتھ ہی ہم سب فیصلہ کریں کہ توانائی کا استعمال کو کم کیا جائے، دن کی روشنی میں کام کریں، شام میں کاروباری سرگرمیاں بند کرنے کا ذکر ہورہا ہے،موجودہ مشکل صورت حال سے نکلنے کے یہ چند نسخے ہیں۔ لوگ آج کل زیادہ منافع کےلیے ڈالر اور سونے میں سرمایہ کاری کررہے ہیں،تو اس سے نمٹنے کے لیے حکومت پاکستان ڈالر لنک بانڈجاری کرے تو ڈالر کی قیمت کے اتار چڑھاو سے وہ فائدہ ان کومل جائے گا، روپے کی قدرمزید کم نہیں کرنی چاہیے، بعض لوگ ایکسپورٹ بڑھانے کے نام پر ایسے مشورے دیتے ہیں جوٹھیک نہیں، روپے کی قدر کم کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ 

روپے کی قدر برقرار رکھنے والی حکومتی پالیسی ٹھیک ہے کیوں کہ اگر یہ کیاگیا تو عوام مہنگائی کی مزید چکی میں پس کررہ جائیں گے۔ اوپن مارکیٹ میں ایکسچیج پر قدغن لگائی ہوئی ہے جس کے مطابق ڈالر 235 یا دوسو چالیس قیمت رکھی جائے یہ نہ کیا جائے ڈالر کو اوپن کردینا چاہیے تاکہ آپ کو ٹھیک قیمت کا اندازہ ہو اس پالیسی سے کچھ عرصے میں اوپن مارکیٹ میں ریٹ دوبارہ ٹھیک ہوجائےگا۔ معیشت کو سنبھالنے کےلیے لوگوں سے ٹیکس وصول کریں، بدقسمتی سے ہمارے سارے فیصلے سیاسی دباو میں ہوتے ہیں اور جو لوگ ٹیکس دے رہے حکومت ان ہی پر مزید ٹیکس لاد دیتی ہے،اور جو نہیں دیتے ان سے پوچھا بھی نہیں جاتا تو اس سے منفی رحجان پیدا ہوتا ہے لوگ بچنے کے لیے اپنے آپ کو انکم ٹیکس میں رجسٹر ہی نہیں کراتے، انکم ٹیکس ڈیپارٹمنٹ میں یہ صلاحیت ہی نہیں کہ ان کے سسٹم سے باہر لوگ کو کیسے سسٹم میں لایا جائے۔ ٹریڈرز پر ٹیکس لگا ان کے ایک ہی ٹوئیٹ پر وہ فیصلہ واپس ہوگیااورکارپوریٹ سیکٹر پر بہت ہی زیادہ سپرٹیکس لگادیا گیا، اس رویےسے بیرون ملک سے سرمایہ کاری کرنے والےمایوس ہوتے ہیں ،ہمیں مشکل صورت حال سے نکلنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے،جس میں انتظامی ،مراعات دونوں شامل ہیں۔ پاکستان میں کاروبار کا مثبت پہلو یہ ہے کہ یہاں فائدہ زیادہ ہوتا ہے۔

جنگ: کیا ہمیں آئی ایم ایف سے معاہدہ کرنا چاہیے ،بعض منع کررہے کچھ کا خیال ہے ضرورت ہےآپ کی کیا رائے ہے؟

عارف حبیب: پچھلے ہفتے پاکستان بزنس کونسل کی وزیراعظم وزیرخزانہ سمیت دیگر وزرا سے ملاقات تھی،پاکستان بزنس کونسل نے اس موقع پر زور دیا کہ آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ کرنا بہت ضروری ہے میں ان کی اس بات سے اتفاق کرتا ہوں وہ اس لیے کہ تمام مالیاتی ایجنسی، دوست ممالک،حتی کے ہمارے دوست جو بین الاقوامی ایکویٹی کے سربراہ ہیں وہ کہتے ہیں امریکی صدر جوبائیڈن اورچینی صدر شی کے درمیان جوملاقات ہوئی تھی ،اس میٹنگ کے پندرہ نکاتی ایجنڈے میں پاکستان بھی شامل تھا، وہاں ان میں یہ اتفاق ہوا پاکستان کو آئی ایم ایف کو دیکھنے دیا جائے تو اب ہمارے دوست ملک اور تمام بین الاقوامی ادارے بھی یہ کہہ رہے ہیں،آئی ایم ایف ہم سے کہتی ہے کہ آپ خرچ اپنی جیب کے مطابق کریں، ٹیکس وصول کریں ، سبسڈی ٹارگٹڈ دیں، ہم جب تک آئی ایم ایف پروگرام میں ہوتے ہیں تو ہمارے معاملات قاعدے قانون میں رہتے ہیں۔

اگر ہمیں بین الاقوامی مالیاتی اداروں کی شرائط بری لگتی ہیں تو بحٖثیت قوم ہمیں لگژری طرز زندگی سے پرہیز، اخراجات میں کمی اور اپنی چادر کے مطابق پیر پھیلانے کی عادت ڈالنی ہوگی۔ ہمیں پاکستان سے محبت تو ہے لیکن کیسے کرنی ہےیہ نہیں معلوم، یہ بتانا اور سمجھانا پڑے گا۔ بیرون ملک پاکستانیوں کی تعدا ایک کروڑ کے قریب ہے،جن کی آمدنی 80بلین ڈالر سے بھی زیادہ ہے، جس میں سےہمارے پاس صرف 25 سے 30بلین ڈالر پاکستان آتاہے ۔اگر ہم اپنے اوورسیز پاکستانیوں کو بقیہ بچت بھی ملک میں سرمایہ کاری کےلیے قائل کرلیں راغب کریں تو ہمارے یہاں ڈالر کی کمی نہ رہے، ہمارے میڈیا کوبھی ذمہ دارمثبت کردار ادا کرنا پڑے گا،وہ معیشت پر منفی خبروں سے گریز کرے۔

جنگ: رواں برس پاکستانی معیشت کی حالت کیا رہے گی؟

امین ہاشوانی: پاکستا ن کے15 سرفہرست سوشل اکنامی انڈیکیٹرز کا جائزہ لیں جس میں صنفی تفریق،بچوں کی اموات،پانی کی ضرورت،ہمارا ٖجی ڈی پی وغیرہ ، پچھلے چالیس سال میں ریکارڈ سب میں منفی رہا،بہت تیزی سے ہماری آبادی بڑھ رہی ہے ،یہ بدترین بحران کی نشانیاں ہیں، مصر اور ارجنٹائن ڈیفالٹ ہوئے تو وہاں کی خوش حال عوام ٹھیک تھی، توکسی معاشی مشکل کی صورت میں مسئلہ غریبوں کو ہی ہوگااشرافیہ کو فرق نہیں پڑے گا۔1947 قیام پاکستان کے موقع پر ہمارے پاس نہ توانفراسٹرکچر تھانہ پیسے تھے، مہاجرین کا دباو تھا اس کے باوجود ہم اگلے پندرہ سالوں میں ایشین ٹائیگر بننے جارہے تھے تو ہم نے اس وقت کون سے کام کیے تھے جب کہ ہمارے پاس کچھ نہیں تھا اور ترقی کررہے تھے اور آج بہت کچھ ہے تو تنزلی کا شکا رہیں۔ 

ہم میں ترقی کرنے کی پوری صلاحیت ہے ،ہماری آبادی کا بڑا حصہ نوجوانوں پر مشتمل ہے، ہمیں معلوم ہے انہیں بہتر تعلیم و تربیت فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔ تو پھر کیا وجہ ہے ترقی کےلیے کوئی منصوبہ بندی نہیں کررہے، سب کو لالی پاپ میں کو لگایا ہوا ہے پیسے ادھر سے آجائیں گے وہ ہماری مدد کردے گا،لیکن اب ہمارے دوست بھی پریشان ہوچکے ہیں۔ ہمارے یہاں سب کو معلوم ہے اسٹرکچر ریفارمز کیا ہیں وہ کیوں ضروری ہیں ہمیں کیا کرنا ہےتو پھرسوال یہ ہے کیا وجہ ہے ضرورت کے باوجود ہم نہیں کرپا رہے میڈیا ہی کو دیکھ لیں، گفتگو اور پروگرام کے لیول نچلے کس درجے پر ہیں،سوائے سیاسی شورشرابے کے، صحت ہویا کوئی دیگر سوشل سیکٹر سنجیدہ یا حساس گفتگو نہیں ہوتی، ہمارے یہاں بچوں میں اموات کی شرح بہت زیادہ ہمارے لیے قابل شرم بات ہے۔

جنگ: میڈیا بالخصوص الیکٹرانک میڈیا کی مجبوری ہےکہ اگر وہ تعلیم صحت یا کسی اور سوشل مسئلے پر سنجیدہ پروگرام نشر کرتا ہے تو لوگ دیکھنے میں دلچسپی نہیں لیتے جس سے ریٹنگ پر فرق پڑتا ہے جس کا براہ راست تعلق بزنس سے ہے یہاں پر میڈیا کے ساتھ عوام بھی ذمہ دار ہے۔ جنہیں ایسے پروگرام دیکھنا پسند ہے۔

امین ہاشوانی: ریفارمز نہ ہونے کی وجہ بڑی سادہ ہے، اسٹرکچرل ریفارمز طویل الیعاد منصوبے ہوتے ہیں جس کےلیے وقت درکار ہوتا ہےپھر شارٹ مدت میں قربانی دینی پڑتی ہے، ہمارے یہاں بڑے کام کےلیے عمل درآمد پر اتفاق رائے پیدا کرنا بہت مشکل ہے۔ مشرف دور حکومت میں دستیاویزی معیشت کی بات ہوئی تھی تو تاجر اور دیگر شعبوں کے لوگ اس کے خلاف سڑکو ں پر آگئے تھےکیوں کہ حساب کتا ب رکھنے اور بتانے کا ہمارا مزاج ہی نہیں نہ کچھ دینا ہے۔ 

ہمارے یہاں کہا جاتا ہے بینک کا پرافٹ اور انشورنس کروانا جائز نہیں تو میرا سوال ہے آپ ٹیکس نہیں دیتے کیا یہ جائز ہے، جس کام میں ہمارا فائدہ ہے اس کے لیے ہم ساری لاجک لے آتے ہیں، ہماری سوسائٹی میں دوہرا معیار اور منافقت کسی وبا کی طرح موجود ہے، ہم سازشی تھیوری میں الجھے رہتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی تقسیم ہے،معیشت کی بحالی کے لیے سوسائٹی کو بھی دیکھنا ہوگا۔ آئی ایم ایف آج ہمیں سختی سےجن ریفارمزکوکرنے کا کہتا ہے اسے ہمیں بہت پہلے خود کرلینا چاہیے تھا، وہ ہماری ضرورت ہے ہم اس کا الزام آئی ایم ایف کودے رہے ہیں اور کہتے ہیں یہ مغرب کی سازش ہے،پاکستان کی سب سے بڑی سازش تھیوری نااہلی ہے۔

شرکا کے لیے اب ہم اپنا فورم اوپن کرتے ہیں وہ موضوع کے مطابق سوال کرسکتے ہیں۔

نظام: آپ لوگوں نے ہماری ویلفیئر کے لیے اب تک کیا اقدامات کئے ہیں، آپ لوگوں کو پاکستان کا اچھاوقت دیکھنے کو ملا لیکن ہمیں اچھی صورت حال نہیں مل رہی ،یہ آپ کی خامی ہے یا کوئی خارجی وجوہات ہیں؟

عارف حبیب: تاجر اور انٹرپینور کی بڑی ذمہ داری روزگار کے زیادہ سے زیادہ نئے مواقع پیدا کرنا ہیں، بزنس مین کاروباری حالات سازگار کرنے کی بات کرتا ہے کیوں کہ، بہتر حالات میں سرمایہ کاری بڑھتی ہے توجب کاروبار بہتر ہوگا تو نوجوانوں کے لیے روزگار کے زیادہ سے زیادہ نئے مواقع پیدا ہوتے ہیں، ایسے بزنس کیئے جائیں جس سے ہماری ایکسپورٹ بڑھے،ایک بزنس مین کی ذمہ داری میں جو بہت سارے پہلے سے ہی کام کرتے بھی ہیں وہ ایجوکیشن انسٹی ٹیوشنز، ہیلتھ انسٹی ٹیوشنز کی مدد کریں، اور حکومتوں کو درست سمت میں رکھنے کےلیے مشورے بھی دیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے بزنس مین اس مقام پر نہیں پہنچے جہاں ہم حکومت کو سختی سے یہ کہیں کہ یہ ٹھیک ہے اوریہ آپ غلط کررہے ہیں۔

امین ہاشوانی: کس نے اچھا کیا کس نے برا کیا، اسے چھوڑ کر آگے بڑھیں ،اب آپ کا وقت ہےآپ اچھا کرنا شروع کریں۔ روپیہ اوپر جائے یانیچے گرے گا یہ ہمارا کیا دھرا ہے، ہم اپنی جی ڈی پی بہتر کریں، ایکسپورٹ بڑھائیں ،صورت حال بہتر ہونے لگے گی، یہ گلوبل مالیاتی سسٹم ہے ہم اس سے نکل نہیں سکتے۔

مصیر اقبال: سوسائٹی تقسیم ہے اسے توازن میں لانے کی ذمہ داری کیا ریاست کی نہیں ہے؟

عارف حبیب: موجودہ حالات کے مطابق ملک کے ہرطبقے کو اس کی ذمہ داری سے متعلق تعلیم اور آگہی کی ضرورت ہے۔ ہمیں بچوں نوجوانوں کو بتانا ہے آج کل کے حالات میں ہمیں اپنے غیرملکی زرمبادلہ کی بچت کرنی ہے۔

امین ہاشوانی: ہرسوسائٹی میں طبقاتی تقسیم ہوتی ہے، لیکن سوچ میں انتہائی تقسیم آپ کی سوسائٹی کےلیے خطرناک ہے، کسی رائے پراسے انتہائی سطح پر کھڑا کردینا تباہ کن ہےجوآج کل ہماری سوسائٹی میں ہورہا ہے۔صحت مند تنقیدکسی بھی معاشرے کے لیے اچھی بات ہے۔

انس: ہمارے یہاں ٹیکس دینے کا تناسب بہت کم ہے، دوسرا وفاقی وزیرخزانہ نے ربا فری معیشت کی بات کی ہےاس کے معلق رائے چاہیے؟

عارف حبیب: ایسا ہی ہے لیکن آج ہمارا موضوع دوسرا تھا ہمارا بڑا مسئلہ ایکسٹرنل اکاونٹ کا ہے،

امین ہاشوانی: ہم اسلام کے بنیادی اصولوں کو ایماندار ی سے اپنالیں تو سارے مسائل حل ہوجائیں گے،لیکن ابھی ہم منافق حالات میں جی رہے ہیں۔

سمیر: حکومت نے فرٹیلائز رکی ایکسپورٹ پر پابندی لگارکھی ہے، مالی حالت کی بہتری کےلیے پابندی اٹھانا کیسا رہے گا؟

عارف حبیب: یوریا کی ملک میں قلت ہے ہماری پیداوار ڈیمانڈ سے کم ہورہی ہےا س لیے امپورٹ بھی کرنا پڑتی ہے اور اگر پابندی اٹھادی جائے تو پاکستان اور پاکستان کی فرٹیلائزر انڈسٹری کے مزے آجائیں گے کیوں کہ ابھی انٹرنیشنل مارکیٹ میں یوریا کی فی بوری قیمت چھ ہزار روپے ہے اور پاکستان میں دوہزار تین سو روپے میں دستیاب ہے۔ لہذا یہ ممکن نہیں، کبھی سرپلس ہوتا ہے تو پھر اجازت مل جاتی ہے۔

نوشین: پاکستان کو طبقہ اشرافیہ نے گھیرا ہوا ہے ان حالات کے ذمہ داربھی وہ ہیں پھر حالات کیسے بہتر ہوجائیں گے، اس کا کتنا امکان ہے؟

اکبر زیدی: طبقہ اشرافیہ ہر ملک میں قابض ہوتی ہے، جمہوریت یا آمریت دونوں صورتوں میں، سوائے تین چارملکوں کے جہاں انقلاب آئے،ویت نام، چین، کیوبا اور سوویت یونین اور ایران میں ایک علیحدہ طرح کا انقلاب آیا تھا۔ اگر یہ طبقہ قبضہ کرتاہے تو کام بھی یہ ہی کرتا ہے جیسے مہاتیر یانہرو دونوں اسی طبقے کے نمائندے تھے ترقی ان ہی کے ذریعے ہوتی ہے، شروع کے تیس چالیس سال ہمارے ملک میں بہت تیزی سے ترقی ہوئی، 1964 میں ایک امریکی اخبار نے تبصرہ کیا تھا کہ دنیا میں صرف ایک ملک پاکستان ہے جو امریکا جیسا بننے جارہا ہے آج ہم ایسا تصور بھی نہیں کرسکتے، ہم ہرشعبے میں بہت تیزی سےزوال پذیر ہوئے۔ ہمارا مسئلہ نظام حکومت میں بار بار رکاوٹ رہی ہے، اچھی یا بری جمہوریت چلنے دیاجائے وقت کے ساتھ چیزیں ٹھیک ہوجاتی ہیں۔

دانش: ہماری آبادی کا ساٹھ فیصد نوجوانوں پر مشتمل ہے، لیکن وہ روزگار کے حوالے سے تربیت یافتہ نہیں کیا یہ ملک کے خطرناک نہیں؟

امین ہاشوانی: نوجوان کو اگر ٹھیک سے استعمال کیا جائے تو وہ اثاثہ بنیں گے اور اگر نہیں تو بوجھ ،اور بدقسمتی سےہمارے حالات بتارہے ہیں کہ ہمارے یہاں یہ بوجھ بنیں گے کیوں کہ اچھے ٹیلنٹڈ نوجوانوں کی بہت کمی ہے،پانچ سو درخواستوں میں سے پانچ امیدوار کام کے ہوتے ہیں۔

ابراہیم: ڈیفالٹ کا ہر جگہ ذکر ہورہا ہے سیمینا ہورہے ہیں وہاں کوئی حل سامنے آتا ہے؟

اکبر زیدی: نہ ان کے پاس کوئی حل ہے نہ کوئی خواہش نظر آتی ہے،اشرافیہ سے تعلق رکھنے والے ان میں سے اکثر خود ٹیکس نہیں دیتے اور دوسروں پر مزید لگانے کی بات کرتےہیں تو جب تک یہ طبقہ پریشان نہیں ہوگا ان پر ضرب نہیں لگے کچھ بھی نہیں ہوگا۔

اسد: ہم اپنی معیشت کو آئندہ کیسے چلائیں؟

امین ہاشوانی: ہم مارکیٹ کو اوپن کیے بغیر ترقی نہیں کرسکتے۔

عارف حبیب: مقامی صنعتوں کو سرکاری سرپرستی کی ضرورت ہے مختلف سیکٹرز میں اسے باقاعدہ طور پر پلان کرنا چاہیے۔