• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان سے یومیہ 50 لاکھ ڈالر افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں، امریکی جریدہ

کراچی (نیوز ڈیسک) امریکی خبر رساں ادارے بلومبرگ نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان سے روزانہ لاکھوں ڈالرز افغانستان اسمگل ہو رہے ہیں جس سے افغانستان میں طالبان حکومت کو وہ معاشی سہارا مل رہا ہے امریکا اور یورپ کی جانب سے افغانستان کے اربوں ڈالرز منجمد کرنے کے بعد چھن گیا تھا۔ لیکن اس صورتحال کی وجہ سے پہلے سے ہی معاشی مسائل کا شکار پاکستان کیلئے معاملات تیزی سے خراب ہو رہے ہیں۔ ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری محمد ظفر پراچہ کے مطابق، تاجر اور اسمگلر روزانہ 50؍ لاکھ ڈالرز سرحد پار لیجا رہے ہیں، اور یہ رقم اُس رقم (ایک کروڑ 70؍ لاکھ ڈالرز) کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے جو افغانستان کا مرکزی بینک ہر ہفتے مارکیٹ میں جاری کرتا ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈالر کی اس غیر قانونی منتقلی کی وجہ سے ہی طالبان مغربی ممالک کی پابندیوں سے بچنے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ افغانستان پر 2021ء میں امریکی انخلاء کے بعد یہ پابندیاں عائد کی گئی تھیں۔ لیکن پاکستان کیلئے ڈالر کی یہ اسمگلنگ غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کی کمی اور روپے کی قدر مزید کم ہونے کا سبب بن رہی ہے جس سے معیشت تباہی کے دہانے پر ہے۔ پراچہ کا کہنا تھا کہ بلا شبہ کرنسی کی اسمگلنگ ہو رہی ہے اور یہ معاملہ کمائی کا شاندار ذریعہ بن چکا ہے۔ اگست 2021ء میں جب طالبان نے افغانستان کا کنٹرول سنبھالا، امریکا ور یورپ نے مل کر افغان مرکزی بینک کے 9؍ ارب ڈالرز کے اثاثہ جات منجمد کر دیے کیونکہ انہیں ڈر تھا کہ طالبان اس پیسے کو دہشت گردی کیلئے استعمال کر سکتے ہیں۔ اقوام متحدہ کے دباؤ کی وجہ سے امریکا نے آدھی رقم جاری کرنے کا فیصلہ کیا لیکن جب طالبان نے افغان خواین اور لڑکیوں کو تعلیمی اداروں میں پڑھنے یا ملازمت سے روک دیا تو امریکا نے یہ آدھی رقم جاری کرنے کا عمل روک دیا۔ 17؍ ماہ بعد، افغانستان آج بھی مسائل کا شکار ہے جبکہ حقوق انسانی کی صورتحال ابتر ہے۔ اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ آدھی سے زیادہ افغان آبادی قحط کا شکار ہے لیکن پاکستان سے افغانستان اسمگل ہونے والے ڈالرز افغان طالبان کو صورتحال سے نمٹنے میں مدد دے رہے ہیں۔ کراچی میں فنانشل کنسلٹنسی کمپنی الفا بیٹا کور سولیوشنز کے چیف ایگزیکٹو خرم شہزاد کا کہنا ہے کہ افغانستان کو روزانہ 10؍ سے 15؍ ملین ڈالرز کی ضرورت ہے، اندازاً اس کا آدھا حصہ پاکستان سے جاتا ہے۔ افغانستان کے مرکزی بینک دا افغانستان بینک کے ترجمان حسیب نوُری کا کہنا ہے کہ مرکزی بینک کے پاس معیشت کو سنبھالا دینے کیلئے کافی ڈالرز دستیاب ہیں۔ اس میں سے کچھ حصہ اقوام متحدہ انسانی بنیادوں پر فراہم کی جانے والی امداد کے طور پر ہفتہ وار 40؍ ملین ڈالرز کی صورت میں فراہم کر رہا ہے۔ چونکہ افغانستان کو عالمی بینکاری نظام سے نکال دیا گیا ہے اسلئے یہ رقم نقد کی صورت میں افغانستان پہنچتی ہے جہاں اسے مقامی کرنسی ’’افغانی‘‘ میں تبدیل کیا جاتا ہے۔ لہٰذا، امداد سے براہِ راست طالبان کو فائدہ تو نہیں ہو رہا لیکن ڈالر مرکزی بینک کے خزانے میں بدستور جمع ہو رہے ہیں۔ موقف کیلئے اقوام متحدہ سے رابطے کی کوشش کی گئی لیکن جواب نہیں ملا۔ افغانستان کیلئے آمدنی کا ایک اور ذریعہ کسٹمز کے ٹیرف ہیں جو ڈالرز میں وصول کیے جاتے ہیں۔ واشنگٹن میں آئی ایم ایف کے سابق مشیر توریک فرہادی کا کہنا تھا کہ دراصل اقوام متحدہ ڈالر سپلائی اور بدلے میں افغانی کرنسی خرید کر ’’افغانی‘‘ کرنسی کو مستحکم رکھتا ہے، تو اس طرح دیکھیں تو افغانی کرنسی کی طلب پیدا کرنے والوں میں اقوام متحدہ، کچھ دیگر اور ڈالرز کے اسمگلرز شامل ہیں۔ گزشتہ ہفتے سے لیکر رواں ہفتے کے ابتدائی دن یعنی پیر تک افغانی کرنسی نے ڈالر کے مقابلے میں بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے اور اس کی قدر میں 5.6؍ فیصد اضافہ ہوا ہے۔ یہ بہتر کارکردگی دنیا کی دیگر کرنسیوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہے۔ اس سے قبل دسمبر 2021ء میں طالبان کی جانب سے اقتدار سنبھالنے پر ایک ڈالر 124.18؍ افغانی کا ہو گیا تھا اور اب فروری 2023ء تک یہ 89.96؍ افغانی فی ڈالر ہے۔ اگر اسی عرصہ کو بینچ مارک رکھا جائے تو ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی یعنی روپے کی قدر میں 37؍ فیصد گراوٹ آئی۔ صرف جنوری میں روپے کی قدر میں 10؍ فیصد کمی ہوئی جو گزشتہ دو دہائیوں میں سب سے بڑا جھٹکا ہے۔ تباہ کن سیلاب، بڑھتی مہنگائی، سیاسی بحران اور زوال کا شکار غیر ملکی زر مبادلہ کے ذخائر کی وجہ سے پاکستان شدید مشکلات میں پھنسا ہے۔ 27؍ جنوری تک پاکستان کے مرکزی بینک میں صرف 3.09؍ ارب ڈالرز باقی رہ گئے تھے جو گزشتہ 9؍ سال میں اپنی کم ترین سطح پر ہیں۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کسھ سرکاری عہدیداروں کا کہنا تھا کہ پاکستان سے ڈالر کی اسمگلنگ کا سلسلہ گزشتہ سال کے وسط میں اس وقت شروع ہوا تھا جب پاکستان نے افغانستان سے کوئلہ خریدنا شروع کیا۔ ایک اور وجہ یہ بھی تھی کہ افغان طالبان نے ملک میں پاکستانی روپے کے استعمال پر پابندی عائد کر دی اور صرف ڈالر کے ذریعے ہی برآمدات کی اجازت دی جس سے ڈالر پاکستان سے اسمگل ہو کر افغانستان پہنچنے لگا۔ اسٹیٹ بینک کے گورنر جمیل احمد نے گزشتہ ماہ پریس کانفرنس کے بعد دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ جب یہ لوگ لوکل مارکیٹ سے ڈالر خریدتے ہیں تو ہماری مارکیٹ پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔ حاجی محمد رسول ایک تاجر ہیں جو افغانستان سے کوئلہ لا کر پاکستان میں فروخت کرتے ہیں۔ وہ افغانستان کی مقامی کرنسی میں کوئلہ خریدتے ہیں اور مارک اپ پر پاکستانی روپے میں پاکستان کو فروخت کرتے ہیں، اس کے بعد وہ اس روپے کو ڈالر میں تبدیل کرتے ہیں اور پھر وہ یہ ڈالر حوالہ جیسے غیر قانونی ذریعے سے افغانستان بھیج دیتے ہیں۔ حاجی محمد رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ڈالر تلاش کرنا مشکل ہے لہٰذا وہ پشاور جیسے علاقوں میں قائم بلیک مارکیٹس سے 10؍ فیصد اضافی ریٹ پر ڈالر خرید کر افغانستان بھیج دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تقریباً سبھی تاجر یہی کر رہے ہیں کیونکہ طالبان نے افغانستان میں پاکستانی روپیہ لانے پر پابندی عائد کر رکھی ہے۔ افغان وزارت خزانہ کے ترجمان ولی حقمال کا کہنا ہے کہ طالبان ملک میں ڈالر لانے والوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں لیکن ڈالر ٹرانسفر کو پانچ ہزار ڈالرز تک محدود رکھا گیا ہے۔ پاکستان میں ایکسچینج کمپنیز ایسوسی ایشن پاکستان کے جنرل سیکریٹری محمد ظفر پراچہ کے مطابق سارا مسئلہ پاکستان کے خامیوں سے پُر امیگریشن نظام اور تجارتی پالیسیوں اور بارڈر کنٹرول کا ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد بغیر ویزا بارڈر کراس کرتے ہیں اور سب کے پاس لیجانے کیلئے ڈالر ہوتے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید