صوبائی اسمبلی تحلیل ہوئے کم و بیش 3 ہفتے گزر چکے ہیں۔ نگران حکومت بھی قائم ہو چکی تاہم عام انتخابات کے حوالے سے تاحال تاریخ کا اعلان نہیں کیا گیا نہ ہی اس حوالے سے کوئی فیصلہ یا گفت وشنید سامنے آئی ہے۔عام انتخابات کا بروقت اور شفاف انعقاد الیکشن کمیشن اور نگران حکومت کی بنیادی آئینی ذمہ داری ہے جس سے کسی صورت انحراف نہیں کیا جا سکتا ہے عام انتخابات کا 90روز میں انعقاد نہ کروانا آئین پر کاری ضرب کے ساتھ ساتھ نگران حکومت اور آئینی اداروں پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
ماضی میں حکومتوں کی برطرف، جمہوریت کی بساط لپیٹے سمیت دیگر غیر جمہوری و غیر آئینی اقدامات کا جائزہ لیا جائے تو یہ واضح ہوتا ہے کہ ایسے تمام تر اقدامات ’’آمروں‘‘ نے کئے اگرچہ کہ انہیں 18ویں آئینی ترمیم کے بعد اگر بروقت انتخابات کا انعقاد نہیں کروایا جاتا تو یہ ملکی تاریخ میں پہلی بار ہو گا کہ جمہوریت کا راگ الاپنے والے جمہوری اداروں کے نمائندے ہی آئین اور جمہوریت پر حملہ کریں گے۔ یعنی آئین شکنی بیرونی قوتوں کی بجائے پارلیمان اور آئین کی بالادستی اور اس کے محافظوں کی جانب سے ہو گی۔نگران حکومتوں کے لئے بروقت عام انتخابات کا انعقاد ایک چیلنج ہے نگران وزیر اعلیٰ محسن نقوی اور ان کی کابینہ کی جانب سے ہسپتالوں پر چھاپے، ترقیاتی منصوبوں کے جائزے اور شہرت کے حصول کے لئے کئے جانے والے دیگر کاموں کی حیثیت ثانوی ہے نگران حکومت کے لئے اصل ٹاسک بروقت انتخابات کا انعقاد ہے۔
انتخابات کے التوا کی روایات اگر ایک بار جمہوری حکومت کے ذریعے چل پڑی تو پھر یہ سلسلہ ٹھہرے گا نہیں اور مستقبل میں بار بار نظریہ ضرورت کے تحت آئین اور جمہوریت پر وار کئے جاتے رہیں گے۔ عمران خان کے مزاج اور سیاسی حکمت عملی کا اگر جائزہ لیں اور جیل بھرو تحریک کے اعلان کے بعد اگر یہ تحریک کامیاب ہو گئی تو حکومت کے پاس بھی آپشنز کم ہوتے جائیں گے اور ان کے پاس بھی بچ نکلنے کا کوئی راستہ نہیں رہے گا ۔جس کا فائدہ غیر سیاسی قوتیں بھی اٹھا سکتی ہیں۔
منتخب حکومت کی عدم موجودگی کے باعث پیدا ہونے والی مشکلات کا جائزہ لیا جائے تو واضح ہو گا کہ بہت سے سرکاری کام بھی جو رکے ہوئے ہیں پنجاب کے سرکاری اداروں میں سرپرست نہیں لگائے جا رہے بیوروکریسی میں ہونے والے بڑے پیمانے پر اکھاڑ پچھاڑ کی بدولت اداروں میں کام بری طرح متاثر ہو رہا ہے۔ پنجاب کی جامعات میں یوسی کی تقرری کا بھی طویل عرصے سے التوا کا شکار ہے جبکہ آئندہ کچھ دنوں میں مزید وائس چانسلر کی مدت ملازمت پوری ہو جائے گی۔
اس طرح ایل سیز بند ہونے سے ہسپتال میں ادویات کی قلت سے آپریشن تھیٹرز میں بیہوش کرنے والی ادویات سے لیکر سرجیکل آلات تک بہت سی چیزوں کی ایل سیز اور امپورٹ بند ہونے کے باعث قلت ہے جس سے روز مرہ معاملات چلانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ صورتحال کا تفصیلی جائزہ لیا جائے تو حالات سیاسی استحکام آئے بغیر ٹھیک ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ۔اگر کہا جائے تو غلط نہ ہو گا کہ سیاسی و معاشی استحکام کے لئے غیر جانبدارانہ اور شفاف انتخابات کے بعد بننے والی منتخب حکومت ہی واحد حل دکھائی دے رہی ہے۔ تاہم اب دیکھنا یہ ہے کہ نگران حکومت اور الیکشن کمیشن کس طرح بروقت انتخابات کرواتا ہے۔
دوسری جانب دیکھیں تو تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے جیل بھرو تحریک شروع کرنے کا عندیہ دیا ہے ۔تاحال ان کی جانب سے کی جانے والی سیاسی منصوبہ بندیاں زیادہ کامیاب ہوتی نظر نہیں آتیں اور انہیں حکومت اور مقتدر حلقوں کی جانب سے مشکلات کا سامنا ہی کرنا پڑرہا ہے۔ جیل بھرو تحریک کا انجام نجانے کیا ہوگا لیکن عمران خان کی مشکلات بڑھتی چلی جا رہی ہیں تحریک انصاف کے قائدین کے خلاف ہونے و الی ایف آئی آر اور پکڑ دھکڑ کے سلسلے تھمنے میں نہیں آ رہے۔ تحریک انصاف اور ان کے حمایتیوں کے حوصلے بھی بلند نظر نہیں آ رہے، تاہم عمران خان نے اس صورتحال کے باوجود مفاہمت یا مصلحت کی پالیسی کی بجائے مزاحمتی سیاست جاری رکھی ہوئی ہے۔
سیاسی مبصرین کا کہنا ہے کہ پاکستانی سیاست کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو یہ کہنا غلط نہیں کہ عمران خان ایسی پالیسیوں اور اڑیل طبیعت کے باعث بند گلی میں داخل ہوچکے ہیں جہاں سے ان کے پاس نکلنے کے راستے کم ہوتے جا رہے ہیں۔
دوسری جانب طوفانی مہنگائی نے عوام کی صرف چیخیں ہی نہیں نکالیں بلکہ عام آدمی کی جان ہی نکال لی ہے۔بات صرف یہاں تک ہی محدود نہیں ہے آنے والے دنوں میں آئی ایم ایف سے معاہدے کی منظوری کے بعد اس طوفان میں کئی گنا اضافہ متوقع ہے جس سے نہ صرف وفاقی حکومت بلکہ نگران حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ختم ہو جائیگی اور حکومت کے خلاف نہ ختم ہونے والی مزاحمت جنم لے گی جس کے باعث حکمران اتحاد اور ان کے حامیوں کو صرف انتخابات کا التوا وہی واحد حل دکھائی دے گا۔ تاہم یہ بات اب مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ مہنگائی کا اژدھا ہم سب کو نگلنے کو ہے اور (ن) لیگ سمیت تمام اتحادیوں کو عام انتخابات میں اس کے نتائج بھگتنا ہوں گے۔