• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

میئر پیپلز پارٹی اور ڈپٹی میئر جماعت اسلامی کا ہوگا

16مارچ کو کراچی کے9 حلقوں کے لیے کاغذات نامزدگی حاصل اور جمع کرنے کا سلسلہ شروع ہوچکا ہے یہ نشستیں پی ٹی آئی کے ارکان اسمبلی کے استعفوں کی منظوری کے بعد خالی قرار دے دی گئی تھی پی ٹی آئی کی جانب سے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ پارٹی چیئرمین عمران خان ان تمام نشستوں پر امیدوار ہوں گے تاہم اب فیصلہ تبدیل کرتے ہوئے پارٹی کے سابق ارکان قومی اسمبلی ان نشستوں پر انتخاب لڑیں گے، جبکہ ایم کیو ایم نے بھی اس ضمنی انتخاب میں حصہ لینے کا فیصلہ کیا ہے انہیں پی ڈی ایم کی بھی حمایت ہوگی۔

ایم کیوایم نے ضمنی الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان کرکے بڑا جوا کھیلا ہے، ایم کیو ایم پاکستان میں پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم بحالی تنظیم کمیٹی کے فاروق ستار نے پارٹی ضم کردی ہے، اب ایم کیو ایم کے ووٹ تقسیم ہونے کا خدشہ نہیں تاہم شنید ہے کہ ایم کیو ایم لندن ایک بار پھر ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کرے اس صورت میں اگر ٹرن آؤ ٹ کم رہا یا ایم کیو ایم پاکستان وہ نشستیں حاصل نہیں کرپائی جو ایم کیو ایم کے دعویٰ کے مطابق ان سے چھین کر پی ٹی آئی کو دی گئی تھی تو اس صورت میں ایم کیو ایم کی انتخابی سیاست پر سوالیہ نشان کھڑا ہوجائے گا اور کراچی سے ان کے اسٹیک کو ختم تصور کیا جائے گا۔ 

بلدیاتی انتخاب میں بڑی کامیابیاں سمٹنے والی پی پی پی اور جماعت اسلامی کا موقف سامنے نہیں آسکا ہے کہ آیاوہ ان نشستوں پر انتخاب لڑیں گی یا پھر انتخاب سے راہ فرار اختیار کرے گی گزشتہ ضمنی الیکشن میں پی پی پی نے حصہ بھی لیاتھا اور انہیں کراچی سے ایک اضافی نشست بھی لی تھی تاہم جماعت اسلامی نے عام انتخاب 2018 کے بعد کسی بھی ضمنی الیکشن میں حصہ نہیں لیا اور شنید ہے ہے کہ اس بار بھی وہ میدان سے باہر رہے گی پی ڈی ایم ک کےقائد مولانا فضل الرحمن نے پی ڈی ایم کی جماعتوں کر ضمنی الیکشن نہ لڑے کا مشورہ دیا ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ کراچی کی ان 9 نشستوں کا رزلٹ کیا رہتا ہے ان 9 نشستوں کے نتائج کراچی کے آئندہ کی سیاست کے رخ کا تعین کریں گی۔ ایم کیو ایم نے مشاورت کے بعد اپنے امیدواروں کے ناموں کو شارٹ لسٹ کردیا ہے اور وہ ضمنی الیکشن میں ہیوی ویٹ امیدوار اتاریں گے۔ ان میں ڈاکٹر فاروق ستار، وسیم اختر، سید مصطفی کمال، ڈاکٹر صغیر احمد، وسیم آفتاب، حسان صابر، خوشبخت شجاعت، معیدانور، نیئررضااور افتخارعالم شامل ہیں، امکان ہے کہ جنرل ورکرز اجلاس میں کارکنوں سے ان ناموں کی منظوری بھی لی جائے گی۔

ادھر تاحال کراچی اور حیدرآباد میں میئر کا مسئلہ حل نہیں ہوپایا پی پی پی اور جماعت اسلامی کے درمیان اس ضمن میں رسہ کشی جاری ہے۔ دوسری جانب سندھ کے صوبائی وزیر بلدیات سیدناصرحسین شاہ نے کہاہے کہ پرامید ہوں کہ کراچی کا میئر پیپلز پارٹی اور ڈپٹی میئر جماعت اسلامی کا ہوگا، کراچی میں عددی لحاظ سے پیپلزپارٹی کے پاس نشستیں زیادہ ہیں، جبکہ جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمن نے کہاہے کہ اہل کراچی نے جماعت اسلامی کو جومینڈیٹ دیا ہے اس پر شب خون مارنے نہیں دیں گے، ہم نمبرون پارٹی ہیں، ہمارے ووٹ بھی سب سے زیادہ ہیں اور نشستیں بھی۔

ادھر وزیراعلیٰ سندھ سیدمرادعلی شاہ نے کہاہے کہ کچھ مجبوریاں تھیں جس کی وجہ سے سندھ حکومت بلدیاتی الیکشن کوآگے لے جانا چاہتی تھی، اگر ایسا ہوجاتا تو پیپلزپارٹی اس سے کہیں زیادہ سیٹیں لے جانے میں کامیاب ہوجاتی، ہم نے ایم کیو ایم کو مشورہ دیا تھا کہ وہ الیکشن کا بائیکاٹ نہ کریں لیکن ان کی پارٹی نے بائیکاٹ کا فیصلہ کیا، جس کے نتیجے میں ان کے ووٹ جماعت اسلامی کو ملے ورنہ وہ اتنی سیٹیں لے جانے کی پوزیشن میں نہیں تھے۔ کراچی کے مینڈیٹ اور اس کے مستقبل کا فیصلہ ہونا باقی ہے ادھر اسلامی جمعیت طلبہ کے سالانہ اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے۔

امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے کہا ہے کہ وزیراعظم آئی ایم ایف کے وفد کے سامنے سجدہ ریز ہیں، اس سے بڑھ کر قوم کی اور کیا تضحیک ہو سکتی ہے۔ آئی ایم ایف قرض نہیں عوام کو زہر دے رہا ہے، اس کی شرائط قبول نہیں، جماعت اسلامی مزاحمت کرے گی۔ 10 جنوری کو عوام کا سمندر لاہور سے اسلام آباد جائے گا، تین روزہ مہنگائی مارچ حکمرانوں اور آئی ایم ایف کے لیے پیغام ہے کہ قوم کو آپ کے بند کمروں کے فیصلے منظور نہیں۔

دوسری طرف سندھ یونائیٹڈ پارٹی کے چیئرمین جلال محمود شاہ کی سربراہی میں منعقدہ اجلاس کے دوران مہنگائی، بے روزگاری ، بدعنوانی اور معاشی تباہی کا ذمہ دار پی پی پی کو قرار دے کر سندھ دشمن اقدام کے خلاف اور سندھ کی بحالی کے لیے 15 فروری سے 19 مارچ تک سکھر سے کراچی تک سندھ مارچ کے نام سےپیدل مارچ کا اعلان کیا گیا ہے 19 مارچ کو کراچی میں مارچ کے اختتام پر بھرپور عوامی جلسہ کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا کہ بلدیاتی الیکشن کے پہلے اور دوسرے مرحلے میں سندھ حکومت کی سرکاری مشینری کے ذریعے بدترین دھاندلی کی گئی۔ آر اوز اور ڈی آر اوز پیپلز پارٹی کے پیرول پر کام کرتے نظر آئے۔ الیکشن کمیشن کا رویہ مکمل طور پر جانبدارانہ تھا جو کہ انتہائی افسوسناک ہے۔ سندھ یونائیٹڈ پارٹی اس دھاندلی زدہ الیکشن کو یکسر مسترد کرتی ہے اور مطالبہ کرتی ہے کہ دوبارہ صاف اور شفاف بلدیاتی انتخابات کروائے جائیں دوسری جانب متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی نے متنازع حلقہ بندیوں پر ہونے والے بلدیاتی انتخابات کے خلاف اور شہری سندھ کے مسائل کو حل کرنے کے لئے پی پی حکومت کو ایک ہفتے کا وقت دیتے ہوئے اگلے اتوار سے پریس کلب چوک (فوارہ چوک ) پر بڑے دھرنے کا اعلان کیا ہے۔ 

اتوار کو متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے زیر اہتمام مرکز بہادر آباد سے متصل پارک میں یوم کشمیر اور جنرل ورکرز اجلاس کے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا کہ وہ وقت آگیا ہے جس کا ہمیں اتنے سال انتظار تھا اب شہر کی ساری سڑکوں سے قافلے فوارہ چوک کی جانب رواں دواں ہوں گے آج سے بہادر آباد کا دفتر فوارہ چوک پر ہوگا وہیں سے تنظیم کا نظام چلے گا یہ شہر ہمارا ہے جہاں سے چاہیں گے وہیں سے چلے گا یہ دھرنا ایسا ہوگا کہ سب دھرے کا دھرا رہ جائے گا16 مارچ کو الیکشن اور 18مارچ کو کراچی واپس کراچی والوں کے پاس ہو گا کروڑوں مہاجر آج کی رات آپ کی جانب سے کئے جانے والے فیصلے کے ساتھ کھڑے ہوں گے۔

کراچی کا ایوان اگلے اتوار سے فوارہ چوک پر لگے گا وہیں فیصلہ ہوگا کون ایم این اے اور کون مئیر ہوگا کراچی کے بیٹے مائیں بہنیں یہاں موجود ہیں وہ شہر کی قسمت کا فیصلہ کریں گے، اس بار مردم شماری پانچ سال قبل ہو رہی ہے اب وقت ہاتھ سے جانے نہیں دینا ہے ہمیں اپنے ایک ایک فرد کو گنوانا ہے ہمیں اپنے محلے پڑوس رشتہ دار احباب سب کی گنتی پوری کروانی ہے ہم نے ریاست کو کہا تھا آپ نے ہمیں گنا نہیں تو تولنا پڑ جائے گا ہم نے کہا تھا ہم سے چھینی گئی سیٹیں ہضم نہیں ہو پائیں گی آج ہمیں وہ سیٹیں واپس ملنے جا رہی ہیں ایم کیو ایم کے کارکنان نے الیکشن لڑ کر اپنی طاقت بحال کرنی ہیں یہ 14 سیٹیں کراچی والوں کا حق ہیں فیصلہ ہو گیا ہے یہ قوم الیکشن لڑ رہی ہے اب دوسرا الیکشن بھی لڑنا ہے جس کے لئے دستبردار ہوئے تھے اب اسے واپس لینا ہے اور گھروں سے باہر نکل کر اپنا حق چھین کر واپس لینا ہے۔ متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے احتجاج کی دھمکی کے بعد پی پی پی اور ایم کیو ایم میں کشیدگی بڑھے گی جو وفاقی حکومت کے لیے سودمند نہیں ہوگی۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید