• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

قومی حکومت ملک کو معاشی بھنور سے نکال سکتی ہے؟

پاک فوج اور عوام نے مل کر بے شمار لازوال قربانیاں دے کر ملک کو دہشت گردی سے نجات دلائی تھی مگر افسوس دہشت گردوں نے ایک بار سر اٹھانا شروع کردیا ہے، ملک میں بم دھماکے خودکش حملے اور پولیس اور فوج پر فائرنگ کے پے درپے واقعات نے اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ پشاور میں پولیس کے ہیڈکوارٹر کی مسجد میں خودکش حملہ ہوا ہے جس میں سو سے زائد لوگ شہید ہوگئے ہیں اور اتنے ہی زخمی ہیں۔ 

اس خودکش حملے نے نہ صرف کے پی کے بلکہ پورے ملک کو سوگوار کردیا ہے اس خودکش حملے میں انسانی جانوں کے نقصان پر عوام اور بالخصوص پولیس والوں میں شدید ردعمل پایا جاتا ہے ان کے بقول یہ خودکش حملہ ناقص سکیورٹی اور پولیس حکام اور سیکورٹی اداروں کی غفلت کا نتیجہ ہے۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ عوام کے ردعمل کو کم کرنے کیلئے آرمی چیف جنرل سید عاصم منیر نے جائے حادثہ کا دورہ کیا اور بڑی تعداد میں پولیس ملازمین کی شہادتوں پر دلی رنج وغم کا اظہار کیا۔ 

لواحقین سے دلی تعزیت کا اظہار کیا اور پولیس ملازمین اور ان کے لواحقین کو یقین دلایا کہ وہ دہشت گردوں کے مذموم ارادوں کو خاک میں ملا کر دم لیں گے۔ جنرل عاصم منیر کو اپنی ذمہ داریاں سنبھالنے میں جہاں بدترین معاشی حالات کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے وہاں دہشت گردی کے چیلنجز کا سامنے ہے۔ جنرل عاصم منیر کی زیرصدارت ہونے والے کورکمانڈر کے اجلاس میں دہشت گردی کی نئی لہر پر تفصیلی غور کیا گیا اور دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کیلئے لائحہ عمل طے کر لیا گیا۔ 

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے تمام کور کمانڈروں کو یہ واضح ہدایات دیں کہ اپنے اپنے علاقوں میں دہشت گردوں کے خلاف سخت اقدامات کئے جائیں ماضی میں پاک فوج نے عوام کے تعاون سے بے پناہ قربانیاں دے کر دہشت گردوں کی کمر توڑ دی تھی۔ یہ بات تو طے ہے کسی بھی قسم کی جنگ جیتنے کیلئے فوج کے تعاون کی ضرورت ہوتی ہے اور کوئی فوج عوام کے تعاون کے بغیر جنگ نہیں سکتی اس وقت جان لیوا مہنگائی اور ماضی میں بعض اقدامات کی وجہ سے عوام شدید غصے میں ہیں۔ عوام کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے بھی اقدامات کرنے ہوں گے۔ 

عوام فوج سے محبت کرتے ہیں مگر موجودہ حکومت کی مہنگائی نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے اس کا کوئی پرسان حال نہیں موجودہ حکومت میں خون چوسنے والی مہنگائی ہو رہی ہے حکومت کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں۔ ڈالر کی قیمت بڑھ رہی ہے۔ پٹرول بھی 300 روپے لیٹر تک جائے گا جبکہ بجلی اور گیس کی قیمتیں آسمان کو چھونے لگی ہیں اشیائے ضرورت کی قیمتیں غریبوں کے کنٹرول سے باہر ہوگئی ہیں لوگ فاقہ کشی کا شکار ہو رہے ہیں قتل و غارت گری لوٹ مار ڈاکوں اور چوری کی وارداتوں میں ہوشربا اضافہ ہوگیا ہے زرمبادلہ کے ذخائرتین ارب 50 کروڑ ڈالر کی نچلی سطح پر پہنچ گئے ہیں۔

آئی ایم ایف نے ڈیڑھ ارب دالر دینے کیلئے اتنی کڑی شرائط رکھ دی ہیں کہ سارا بوجھ عوام پر پڑے گا۔ عوام پہلے ہی کچلے ہوئے ہیں یہ نہ ہو عوام بم کی طرح پھٹ جائیں اور پھر صورتحال کسی کے کنٹرول میں نہ رہے۔ حکمرانوں کی شاہ خرچیاں جاری ہیں 80 وزیر و مشیر بھرتی کر لئے گئے ہیں جبکہ 35 کے پاس کوئی محکمہ نہیں۔ بیرون ملک وزراء کے دورے جاری ہیں اور انتہائی مہنگے ہوٹلوں میں قیام ہو رہا ہے کیا عوام اندھے ہیں وہ سب سن اور دیکھ نہیں رہے۔ ملک تباہ کن صورتحال سے دوچار ہے۔ 

عوام کو ریلیف ملنے کی کوئی امید نظر نہیں آرہی۔ عمران خان نے پنجاب اور کے پی کے کی اسمبلیاں توڑ دی ہیں اور آئین کے مطابق 90 دن میں انتخابات ہونے ہیں مگر حکومت نہیں چاہتی انتخابات ہوں کیونکہ ان کے ارکان اسمبلی کیا پروگرام لے کر عوام کے پاس جائیں گے۔ یہ معاملہ عدالتوں میں ہی طے ہوگا۔ آئینی ماہرین کا خیال ہے آئین میں 90 روز سے آگے جانے کی گنجائش نہیں بصورت دیگر آرٹیکل 6لگ سکتا ہے۔ عمران حکومت کی تبدیلی کے بعد پیپلز پارٹی پارلیمنٹرین کے صدر آصف علی زرداری نے اچھے کارڈ کھیلے اپنے بندے بھی فٹ کرا دیئے اور عوام کا سارا ملبہ مسلم لیگ (ن) پر گر رہا ہے اب نواز شریف صاحب کی سمجھ میں آرہا ہے کہ ان کے ساتھ کیا ہاتھ ہوا ہے۔

آصف زرداری بلوچستان اور جنوبی پنجاب میں آہستہ آہستہ اپنی پارٹی کو مضبوط کررہے ہیں۔ نواز شریف صاحب نے تو اپنی صاحبزادی کو میدان میں اتارا تو ہے مگر مسلم لیگ (ن) میں پھوٹ پڑ گئی ہے اور کچھ پارٹی کے سینئر مریم نواز کو سینئر پوزیشن پر لانے میں خوش نہیں۔ شاہد خاقان عباسی، سعد رفیق اور مفتاح اسماعیل پارٹی قیادت سے ناراض ناراض ہیں یہ بھی ہوسکتا ہے چوہدری نثار علی اس گروپ میں شامل ہوجائیں گے مگر چوہدری نثار تازہ ناراض نہیں ہوئے وہ بہت عرصے سے مریم نواز کے انڈر کام کرنے کیلئے تیار نہیں۔ 

مگر بعض سیاسی مبصرین کا خیال ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے بعض سینئر لیڈروں کی ناراضگی نورا کشتی ہوسکتی ہے وہ بیانیہ بدل کر یہ ظاہر کریں گے کہ ہم اپنی پارٹی کی قیادت کے فیصلوں سے ناراض ہیں مگر وہ اپنے طور پر الیکشن جیت کر واپس اپنی پارٹی میں چلے جائیں گے۔ ادھر بعض سیاسی مبصرین تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان کی گرفتاری کا عندیہ بھی دے رہے ہیں اور یہ بھی کہا جارہا ہے کہ انہیں مختلف کیسوں میں نااہل بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔ 

دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کے بعد عوام کا ردعمل کس حد تک ہوگا اور اس کا کیا اثر ہوگا عمران خان جیل بھرو تحریک بھی شروع کر رہے ہیں اس کا کیا نتیجہ نکلتا ہے آنے والے دنوں میں عمران خان صاحب کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوتا ہی نظر آرہا ہے بعض حلقوں کے مطابق قومی حکومت کی بھی تیاریاں ہو رہی ہیں ذمہ دار ذرائع کے مطابق قومی حکومت مختلف جماعتوں کے اچھے لوگوں کو شامل کئے جانے کا امکان ہے مگر کیا انتہائی گھمبیر معاشی صورتحال میں کوئی قومی حکومت ملک کو معاشی بھنور سے نکال سکے گی یہ وقت ہی بتائے گا۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید