عبدالمجید سالک
سناہے کسی گھر میں تھی ایک بلی
وہ چوہوں کو کھا کھا کے تنگ آگئی تھی
اسے صبح شام ایک کھانا نہ بھاتا تھا
بھلا صبر اک چیز پر کیوں آتا؟
بس اک روز بلی نے یہ دل میں ٹھانا
کہ ڈھونڈوں گی اب میں نیا کوئی کھانا
چڑھی ایک کوٹھے پہ یہ سوچ کروہ
نظر اک طرف جب اُٹھائی تو دیکھا
کہ ہے ایک لڑکے کا چھوٹا سا کمرہ
دریچے میں ننھا سا پنجرا ٹنگا ہے
اور اُس میں پرندہ کوئی خوش نما ہے
پرندہ وہ پنجرے میں جب چہچہایا
وہیں منہ میں بلی کے پانی بھر آیا
اُٹھی اور دبے پاؤں کمرے کو چل دی
قدم کو اُٹھاتی چلی جلدی جلدی
جو دیکھا کہ کمرے میں لڑکا نہیں ہے
اور اُس کے پرندے کا پنجرہ وہیںہے
غضب ناک ہوکروہ پنجرے پر چھپٹی
وہ گویا کہ بھپری ہوئی شیرنی تھی
پڑا ہاتھ بلی کا پنجرے کے در پر
زمیں پر گری اُس کی زنجیر کھل کر
نہ پھولی سمائی جو بلی نے دیکھا
کہ اب تو ہے قبضے میں میرے پرندہ