• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فرزانہ نگار

جمیلہ کو صبح کی سیر کا بہت شوق تھا۔ وہ صبح سویرے اٹھ جاتی تھی اور عین گھر کے سامنے باغ میں سیر کرنے چلی جاتی۔ جب سیر سے لوٹتی تھی تو ناشتہ میز پر تیار ملتا ، ناشتہ کر کے اسکول چلی جاتی۔ اور دن بھر سیر کی وجہ سے خوش رہتی تھی۔ اتوار کے روز وہ ذرا دیر سے باغ میں جاتی تھی اور دیر ہی سے لوٹتی تھی، مگر اس دن اتوار کو بڑی جلدی اس کی آنکھ کھل گئی۔ صبح کے ابھی پانچ بجے تھے۔ کھڑکی سے جو ذرا باہر دیکھا تو نیلے آسمان پر چاند اس طرح دکھائی دیا جس طرح ایک سفید گلاب کا پھول جھیل میں تیر رہا ہو۔ اسے چاند بڑا پیارا لگا۔ 

اتنا پیارا، کہ وہ کمرے سے باہر نکل آئی اور چلی باغ کی طرف۔ وہاں پہنچی تو عجب لطف ملا اسے۔ ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ رنگ برنگ کے پھول کھلے تھے۔ وہ ایک روش پر چلتی گئی۔ یہاں تک کہ باغ کے آخری حصے میں پہنچ گئی۔ یہاں ایک چھوٹا سا مکان واقع تھا۔ اس کا دروازہ ہمیشہ بند رہتا تھا۔ جمیلہ جب بھی اسے دیکھتی تھی سوچتی تھی کہ اس کے اندر نہ جانے کیا ہوگا ، اس کا جی چاہتا تھا کہ کبھی ایسا ہو کہ وہ اس کے اندر چلی جائے اور دیکھے کہ اس میں آخر ہے کیا؟

اس دن بھی اس کے ذہن میں ایسا ہی خیال آیا اور وہ دو تین منٹ ٹکٹکی باندھ کر مکان کو دیکھتی رہی اور پھر واپس آنے لگی۔ ایک سرخ گلاب کے نیچے اسےچمکتی ہوئی چیز دکھائی دی۔ دیکھا تو معلوم ہوا کہ گھاس کے اوپر پیتل کی ایک چابی پڑی ہے۔ اسے اٹھاتے ہی یکایک اس کے دل میں خیال آیا کہ ہو نہ ہو یہ اس تالے کی چابی ہے جو مکان کے دروازے پر لگا ہے۔ اس چابی سے وہ یہ دروازہ کھول سکتی ہے۔ لیکن وہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ ڈرتی تھی کہ باغ کا مالی روک دے گا۔ اسے ایسا کرنا بھی نہیں چاہیے۔

گھر آئی تو امی سے بولی، ’’امی دیکھئے! مجھے کیا ملا ہے؟‘‘ امی بولیں، ’’بیٹی تم اسے کیوں لےآئی ہو۔ کسی کی گر گئی ہوگی۔ ڈھونڈتا ہوا آئے گا تو پریشان ہوگا۔ وہیں رکھ آؤ جہاں سے اٹھا کر لائی ہو۔‘‘ یہ کہہ کر اس کی امی اپمے کاموں میں مصروف ہوگئیں۔ جمیلہ نے موقع غنیمت جا اور چابی اپنے تکیے کے نیچے سنبھال کر رکھ دی۔ رات ہوئی تو وہ اپنے بستر پر لیٹی تو کھڑکی میں سے اسےپھر چاند دکھائی دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے چابی کا خیال آیا۔ اس نے تکیہ ہٹا کر چابی اٹھائی اور غور سے اسے دیکھنے لگی۔

چابی دیکھتے دیکھتے اسے خیال آیا کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ مَیں چپ چاپ باغ میں چلی جاؤں اور اس مکان کا دروازہ کھول دوں۔ اس وقت کون دیکھے گا مجھے۔ جلد ہی واپس آجاؤں گی۔ یہی تو دیکھنا ہے کہ اس کے اندر ہے کیا؟. اسے میں نیند بھی آرہی تھی، مگر اس کی نگاہیں چابی پر جمی تھیں۔ اس نے محسوس کیا کہ یہ چابی دوسری چابیوں سے کافی مختلف ہے۔ اس کا رنگ بڑا چمکدار ہے اور عام چابیوں سےبھی بڑی ہے۔ وہ سوچنے لگی کہ بھلا اس مکان میں ہوگا کیا؟ کیسی عجیب وغریب چیزیں ہوں گی اس کے اندر۔ اسے ایک ایسی پری کا خیال آگیا جو کہیں دور رہتی تھی اور جس نے ایک لڑکی کو ایک بڑی خوبصورت اور پیاری سی گڑیا دی تھی۔ پری کی یہ کہانی اس نے اپنی کتاب میں پڑھی تھی۔ 

اب اس سے رہا نہ گیا۔ وہ اٹھ بیٹھی اور کمرے سے نکل کر صحن میں آگئی۔ صحن سے نکلی تو سڑک پر جا پہنچی۔ وہاں سے اسے وہ مکان دکھائی دیا جس میں وہ داخل ہونا چاہتی تھی۔ اور تھوڑی دیر بعد ہی وہ اس کے اندر تھی۔ اب چاروں طرف تھا اندھیرا، گھپ اندھیرا۔ وہ آگے گئی تو ذرا سی روشنی دکھائی دی۔ اور آگے گئی تو دیکھا ایک میز کے اردگرد تین پریاں بیٹھی ہیں۔ میز پر ایک لیمپ روشن ہے اور لیمپ کے آس پاس طرح طرح کے پھولوں سے سجے ہوئے چمکتے دمکتے گلدان رکھے ہیں۔ درمیان میں جو پری نظر آرہی تھی اس کے بال سنہری تھے اور وہ ایک سیب کاٹ رہی تھی۔ یکایک سنہری بالوں والی پری نے لیمپ ہاتھ میں اٹھایا اور اس کی روشنی جمیلہ پر جا پڑی۔ پری مسکرا کر بولی، ’’آؤ لڑکی آجاؤ۔‘‘

جمیلہ ذرا ہچکچائی تو وہ کہنے لگی، ’’آؤ نا۔ ہم تمہارا انتظار ہی کر رہے تھے۔‘‘ یہ لفظ سن کر جمیلہ کے دل میں حوصلہ پیدا ہوا اور وہ ان کے پاس جا پہنچی۔ اس نے دیکھا کہ ایک کرسی خالی پڑی ہے۔ ’’بیٹھ جاؤ اس پر!‘‘ وہی پری بولی۔ جمیلہ کرسی پر بیٹھ گئی۔ پری نے سیب کی کاشیں پلیٹ میں رکھ کر اس کی طرف بڑھائیں۔ ’’کھاؤ! یہ سب تمہارے ہی لئے ہے۔ تمہیں خبر نہیں کہ مَیں اور میری دونوں بہنیں ہر روز صبح سویرے تمہیں دیکھا کرتی تھیں۔ ہمیں وہ بچے بہت پسند ہیں جو پھولوں، درختوں اور تتلیوں سے بڑی محبت کرتے ہیں اور روز صبح باغ میں آکر انہیں دیکھتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں۔‘‘ جمیلہ نے بڑی خوشی ہوئی۔ اس نے سیب کھایا۔ بڑا میٹھا اور لذیذ تھا۔

سنہری بالوں والی پری نے اٹھی اور جلد ہی واپس آگئی۔ اس نے ایک نہایت خوبصورت گڑیا میز پر رکھ دی۔ ’’لو.... یہ تمہارے لئے ہے۔‘‘

جمیلہ گڑیا کو دیکھنے لگی۔ ایسی گڑیا اس نے کبھی نہیں دیکھی تھی۔ یکایک اس کی آنکھ کھل گئی۔ارے یہ تو ایک خواب تھا اور کچھ نہیں۔ وہ اپنے پلنگ پر لیٹی ہے اور ہاتھ میں وہ چابی ہے اس نے اُٹھنے کے لیے کروٹ لی تو حیران رہ گئی ارے یہ تو وہی گڑیا ہے جو پریوں نے دی تھی۔ لیکن وٍہ تو خواب تھا تو یہ گڑیا کہاں سے آگئی اتنے میں اس کی امی آگئیں اور بولیں، ’’جمیلہ بیٹی! دیکھو تو، تمہارے چچا جان لندن سے تمہارے لئے کیسی پیاری گڑیا لائے ہیں۔