یہ ان دنوں کا ذکر ہے، جب ہدایت کار پرویز ملک اپنی فلم سوغات بنارہے تھے، تو اس وقت اداکار بالم نے اپنی ذاتی فلم ’’ اسے دیکھا اسے چاہا ‘‘ کی ڈائریکشن کے لیے پرویز ملک سے رابطہ کیا۔ روزینہ اور وحید مراد کو مرکزی کرداروں میں لے کر فلم کا آغاز کردیا گیا۔ یہ1971 کا ذکر تھا۔ اسی دوران میں اداکاراور اس فلم کے پروڈیوسر بالم انتقال کرگئے، جس کی وجہ سے یہ فلم التوا کا شکار ہوگئی۔ پھر اس فلم کو پرویز ملک نے 1974میں مکمل کیا۔ اس وقت سینما کی اسکرین اردو فلموں کے حوالے سے مکمل رنگین ہوچکی تھی اور یہ فلم سادہ بلیک اینڈ وائٹ تھی۔ فلم کی ہیروئن روزینہ بھی آوٹ آف ڈیٹ ہوچکی تھی۔
یہ فلم جمعہ6سمتبر1974کو کراچی میں ریلیز ہوکر اپنی عمدہ موسیقی کے باوجود ناکام رہی۔ یہ بہ طور ہدایت کار پرویز ملک کی پہلی ناکام ترین فلم ثابت ہوئی۔ اس فلم سے قبل سات کام یاب فلمیں ان کے کریڈٹ پر تھیں، جن میں فلم ارمان اور سپر بلاک یسٹر انمول میں شامل تھیں۔ ’’اُسے دیکھا اُسے چاہا‘‘ میں موسیقی عمدہ تھی، موسیقی کے بعد فوٹو گرافر نذیر حسین کاکام تعریف کے قابل تھا۔ روزینہ کو بہت خُوب صورت ایکسپوز کیا، آوٹ ڈرو مری کے مناظر کی فوٹو گرافی میں بہت اعلیٰ تھی، موسیقار سہیل رعنا نے اپنے سابقہ معیار کو برقرار رکھتے ہوئے فلم کے گانوں کو مقبول بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔
تدوین کار ایم عقیل خان کی بے جان تدوین کاری اور طویل اور بور مناظر بھی فلم کی خامیوں میں اضافے کا باعث بنے۔ اسکرپٹ فارمولا کہانی اور بے جان ہونے کی وجہ سے فلم بینوں کو متاثر نہ کر پایا۔ لہری کے مزاحیہ مکالمے اچے تھے، مگر فلم میں ان کے کردار کی کولاجیک نہیں بتائی گئی۔ فلم میں وحید مراد ، ایک فراڈیے جمال کے کردار میں نظر آئے، مگر حیرت میں ڈال دینے والی بات نظر نہ آئی، حالاں کہ یہ کردار ان کے کیرئیر کا ایک منفرد کردار بن سکتا تھا۔ روایتی رومانی رنگ ان کی کردار نگاری میں غالب رہا، جو اس کردار کے لیے قطعی ضروری نہ تھا۔ فلم کے اس اہم کردار کو مصنف نے صحیح طریقے سے نہیں لکھا ، جواس فلم کی یہ بہت بڑی خامی ثابت ہوا۔
اداکارہ روزینہ جس نے ایک دولت مند باپ کی بیٹی کا کردار کیا، جو ایک اتفاقیہ ملاقات میں وحید مراد کو ملتی ہے اور وحید مراد اس کی دولت سے متاثر ہوکر اس کے قریب ہونے کی کوشش کرتا ہے۔ لہری جو نقلی پرنس مرزا بن کر دھوکہ بازی اور نوسربازی سے لوگوں کو لوٹتا ہے۔ اداکار بالم ایک چکر باز فراڈ یا جو مرزا کے ساتھ مل کر دھوکہ دہی کی وارداتوں میں ملوث ہوتا ہے۔ اداکار قوی ایک دولت مند شخص، جس کے پاس ایک روز وحید مراد آتا ہے اور اس کی دولت کو لوٹنے کے لیے اسے بے وقوف بناتا ہے۔
اداکارہ عندلیب، اداکار محمود علی کی بیٹی، اداکارہ تمنا،روزینہ کی خالہ اور اداکارہ صاعقہ کی والدہ، اداکار نرالا، تمنا کا بیٹا اور صاعقہ کا بھائی اداکارہ ذکیہ خانم، قوی کی بیگم جو وحیدمراد سے عشق کرنے لگ جاتی ہے۔ ٹی وی اداکارہ عرش منیر، روزینہ کی ملازمہ، اداکار حنیف، قوی کا دوست مینا چودھری اور نگو فلم کے ایک گانے میں رقص کرتے ہوئے نظر آئے۔ منشی امداد حسین اور مکرم کے نام بھی فلم کی کاسٹ میں شامل تھے۔
کہانی کا خلاصہ:۔ وحیدمراد(جمال) کی والدہ صبیحہ خانم جو نابینا ہے، اپنے بیٹے جمال جو کہ گھر کا خرچا چلانے کے لیے مختلف فراڈ کرکے روپیہ کماتا ہے، جس کا علم اس اندھی والدہ کو نہیں ہوتا۔ روزینہ (جمیلہ) جو ایک امیر زادی ہے، ایک بار جمال سے ایک مقام پر ملتی ہے، جہاں دونوں شاپنگ کرتے ہیں۔ جمال جھوٹ بول کر جمیلہ س جیب کٹنے کا کہہ کر اپنے خریدے ہوئے سامان کی پیمنٹ کرواتا ہے۔ جمال گھر سے والدہ کو کاروباری ٹور کا بول کر مری جاتا ہے اور وہاں ایک رئیس قوی کے گھر میں داخل ہوکر اسے زبردستی اپنے بچپن کا دوست کہہ کر مہمان بن جاتا ہے۔ قوی کی بیگم ذکیہ خانم کی اس قدر تعریف کرتا ہے کہ وہ اس کی عاشق ہوجاتی ہے۔ قوی اپنے دوست حنیف کوسارا معاملہ بتاتا ہے۔
حنیف کے آنے سے پہلے وحید مراد قوی کے گھر کا صفایا کرکے ایک ہوٹل میں آتا ہے، وہاں وحید مراد کی ملاقات پرنس (لہری) جو نقلی پرنس بنا ہوا ہوتا ہے۔ اس سے ہوتی ہے۔ بالم نقلی پرنس کا ساتھی تھا۔ روزینہ کی خالہ تمنا، اس کی شادی اپنے پاگل بیٹے نرالا سے کروانا چاہتی ہے، تاکہ روزینہ کی ساری جائیداد کی وہ مالک بن جائے۔ تمنا کی ایک بیٹی صاعقہ ہے۔ سب لوگ روزینہ کے گھر میں رہتے ہیں، روزینہ اور صاعقہ مری کے مال روڈ پرگھوم رہی ہوتی ہیں ، ان کی ملاقات وحید مراد سے ہوتی ہے۔ وحید مراد نے روزینہ کو اپنی محبت کا یقین دلانے کی بہت کوشش کی، مگر وہ اس کی محبت پریقین نہ کرپائی، تو وحید مراد نے خود کشی کا ڈراما رچایا اور ایک نقلی ڈاکٹر چکرم کو سارا ڈراما سمجھا دیا۔
چکرم کی اطلاع پر روزینہ اسپتال پہنچتی ہے، تو وحید مراد ویل چیئر پر بیٹھا ہوتا ہے۔ چکرم بتاتا ہے کہ اس کی دونوں ٹانگیں ضائع ہوچکی ہیں، روزینہ، وحید مراد کو اپنے گھر لاتی ہے۔ تمنا اسے دیکھ کر غصہ کرتی ہے کہ وہ اس کے راستے میں دیوار نہ بن جائے۔ لہری جس کا کام ہی امیر زادیوں کو بے وقوف بناکر لوٹنا تھا۔ روزینہ کی سالگرہ پر پرنس کے روپ میں آتا ہے۔ وحید مراد اور لہری ایک دوسرے کو دیکھ کر پہچان جاتے ہیں، لہری کہتا ہے کہ میں روزینہ کو سارا فراڈ بتادوں گا کہ تم نقلی اپاہج بنے ہوئے ہو،لہری،وحیدمراد کو بلیک میل کرتا ہے، وہ روزینہ کو کہتا ہے کہ میرا علاج یہاں ممکن نہیں، مجھے لندن لے جاؤ ۔روزینہ اس کے لیے تیار ہوجاتی ہے۔
لہری کا آدمی بالم یہ باتیں سن کر لہری کو بتادیتا ہے، پھر لہری خود ایک جعلی سرجن بن کر لندن والا کے وحید مراد کا چیک اپ کرتا ہے۔ لہری روزینہ سے کہتا ہے کہ اس کی ٹانگیں صحیح ہوسکتی ہیں۔ آپ اسے کوئی بڑے صدمے سے دوچار کریں۔ روزینہ کو کہتا ہے کہ آپ اس کے سامنے مجھ سے محبت کا ڈراما رچائے۔ اس کی حالت بہتر کرسکتا ہے، روزینہ ، لہری کی باتوں پر عمل کرتی ہے۔ وحید مراد یہ دیکھ کر سمجھ جاتا ہے کہ یہ لہری کی چال ہے۔ وہ ایک روز، روزینہ کے سامنے وہیل چیئر سے کھڑا ہوکر چلنے لگتا ہے۔ یہ دیکھ کر روزینہ بھی اس سے محبت کرتی ہے۔
تمنا روزینہ سے کہتی کہ اب جمال بالکل ٹھیک ہے۔ اسے یہاں سے چلتا کرو، وہ اپنی خالہ تمنا کو صاف بتادیتی ہے کہ اب جمال یہاں ہی رہے گا اور میں نے جمال کے ساتھ شادی کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ لہری ایک دن ایک کروڑ پتی سیٹھ محمود علی کے پاس جاتا ہے اور جمال کے لیے اس کی بیٹی عندلیب کا رشتہ مانگتا ہے۔ لہری ایک روز وحید مراد کو کچھ بتائے بغیر سیٹھ کے گھر آتا ہے اور منگنی کا اعلان کرواتا ہے۔ روزینہ جو عندلیب کی سہیلی تھی، وہ بھی منگنی کی تقریب میں آکر جب دیکھتی ہے کہ وحید مراد کی منگنی اس کی سہیلی سے ہورہی ہے، تو وہ اسے بے وفا سمجھ کر وہاں سے چلی جاتی ہے۔