وطن عزیز کی سیاست اور معیشت اس وقت سنگین بحران کے گرداب میں مبتلا ہے اور ایک ہیجان کی کیفیت اختیار کر چکی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے بارے میں عوام میں یہ اجتماعی رائے پائی جا رہی ہے کہ وہ ملکی مفاد کی بجائے اپنے اپنے مفادات کو حاصل کرنے کے لئے کمربستہ ہیں۔ سیاسی عدم استحکام کی فضا اور بروقت فیصلہ سازی کے فقدان کے باعث معاشی صورتحال کمزور سے کمزور ہوتی جا رہی ہے مہنگائی کے نہ رکنے والے طوفان نے بے بس عوام کی نہ صرف چیخیں نکال دی ہیں بلکہ ان کا جینا محال کر دیا ہے۔ غربت کی لکیر پر زندگی گزارنے والے کئی خاندان فاقہ کشی سے مجبور ہوکر خود کشیوں پر اتر آئے ہیں۔
دوسری طرف دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں نے عدم تحفظ کی لہر میں اضافہ کر دیا ہے۔ یوں محسوس ہو رہا ہے کہ پوری قوم ایک کٹھن آزمائش اور کڑے امتحان سے دو چار ہے۔ حیران کن پہلو یہ ہے کہ ہر دہشت گردی کی واردات کے بعد ارباب اقتدار اور اہل اختیار مذمتی بیان جاری کرنے کی ذمہ داری تو خوش اسلوبی سے ادا کرتے ہیں لیکن یہ حقیقت سب پر آشکار ہے کہ اعلیٰ سطح پر دہشت گردوں کے ساتھ لڑنے کے حوالہ سے منصوبہ بندی میں خیالات کی یکسوئی مفقود دکھائی دیتی ہے۔ چوٹی کی سطح پر اختیارات رکھنے والے نظریاتی حوالہ سے کنفیوژن اور ابہام کا شکار ہیں یا گروہی مفادات میں جکڑے ہوئے ہیں۔
افسوسناک پہلو یہ ہے کہ کسی حکومت نے دہشت گردی اور انتہا پسندی کے خاتمے کے لئے حقائق اور ضروریات کے مطابق ٹھوس حکمت عملی تیار نہیں کی اور جیسے معیشت کے معاملات میں ’’ڈنگ ٹپائو‘‘ پالیسی سے کام چلایا جاتا رہا ہے ایسے ہی دہشت گردی اور اس سے جڑی ہوئی انتہا پسندی کے خاتمے اور مقابلے کے لئے فرسودہ منصوبہ بندی کے سہارے چلنے کی ناکام کوششوں سے کام چلایا جاتا رہا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ دہشت گردی کے اس ناسور نے ان گنت لوگوں کا ناحق خون کیا ہے اور لاکھوں خاندانوں کو خوفناک صورتحال سے دو چار کیا ہے۔ تیزی سے بڑھتے ہوئے اس عفریت کے لئے ٹھوس پلان بنانے کی اشد ضرورت ہے۔
پنجاب اور کے پی کے میں صوبائی انتخابات کیلئے صدر نے تاریخ کا اعلان کر دیا ہے۔جس سے ایوان صدر اور الیکشن کمیشن جیسے بڑے آئینی اداروں کے درمیانایک نیا بحران پیدا ہوگیا۔ دونوں اطراف سے ’’آئینی موشگافیوں‘‘ کے ذریعے اپنی اپنی برتری منوانے کے لئے سرجوڑے جا رہے ہیں۔ سیاسی سرگرمیاں تو زور و شور سے نظر آ رہی ہیں لیکن مختلف قسم کے ماحول نے انتخابات کے معاملہ کو تذبذب میں مبتلا کر رکھا ہے؟ عمران خان کے دور میں آئی ایم ایف جیسے مالیاتی ادارے سے رجوع نہ کرنے کے دعوئوں کے باوجود تاریخ کا سخت ترین پروگرام لیا گیا اور ان کی تمام شرائط کو بھی ماننا پڑا۔
اتحادی حکومت نے آئی ایم ایف سے ازسر نو تعلقات استوار کرنے اور عمران خان کی طرف سے توڑے جانے والے معاہدے کو دوبارہ بحال کرنے کی خاطر مشیر خزانہ مفتاح اسمعٰیل کے ذریعے سیاست کی بجائے ریاست بچانے کو ترجیح دیتے ہوئے غیر مقبول سخت فیصلوں کا آغاز کیا تو تجربہ کار وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے اختلاف کرتے ہوئے خود ’’ڈرائیونگ سیٹ‘‘ کو سنبھال لیا اور آئی ایم ایف کو آنکھیں دکھانا شروع کردیں۔
واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ اب کی بار وہ یہ بھول گئے کہ صورتحال مختلف ہے۔ پی ڈی ایم نے بھی پی ٹی آئی کی طرح آئی ایم ایف کا پروگرام ٹریک پر لانے میں تاخیر سے کام لیاا ور اپنی سیاسی بلوغت اور تجربہ کاری کے باوجود معاملات سیدھا کرنے کا وقت ضائع کرتے ہوئے بالآخر آئی ایم ایف کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ابھی سٹاف سطح کا معاہدہ بھی مکمل نہیں ہوا کہ پہلے ہی شرائط پوری کرنے کا آغاز کر دیا گیا ہے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا کہنا ہے کہ خود وزیر اعظم واشگاف طور پر اعتراف کرنے پر مجبور ہیں کہ آئی ایم ایف ناک سے لکیریں نکلوا رہا ہے اور ان کی کابینہ میں شامل ان کے کئی ہمنوا بھی اس صورتحال کو تسلیم کر رہے ہیں۔
صوبائی دارالحکومت میں ایک طرف زمان پارک میں پی ٹی آئی کی سیاسی سرگرمیاں عروج پر ہیں اور عمران خان روز رات کو اپنی گرفتاری کے خدشے کا اعلان کرکے ’’یوتھیوں‘‘ کو الرٹ کر دیتے ہیں اور اب تو انہوں نے ’’جیل بھرو تحریک‘‘ کے آغاز کے لئے حکمت عملی اور لائحہ عمل مرتب کرلیا ہے۔ دوسری طرف مسلم لیگ (ن) کی چیف آرگنائزر مریم نواز بھی تنظیمی سرگرمیوں کے علاوہ ورکرز کنونشنوں میں مصروف دکھائی دے رہی ہیں۔ پارٹی کے سینئر راہنمائوں کے بارے میں پائے جانے والے تحفظات کی خبروں کو مریم نواز نے گزشتہ دنوں شاہد خاقان عباسی سےطویل ملاقات کے بعد بے بنیاد قرار دے دیا۔
انہوں نے واشگاف طور پر ملاقات کے دوران سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ہمیشہ کی طرح ’’بڑے بھائی‘‘ کے طور پر احترام دیا اور ان کی راہنمائی میں کام کرنے کو ترجیح دینے کا اعادہ کیا۔ مریم نواز نے کہا کہ وہ انتخابات کی تیاریوں میں مصروف ہیں اور عوام کو سب علم ہے کہ مہنگائی کا یہ طوفان کس کے آئی ایم ایف کے ساتھ کئے جانے والے معاہدے کی وجہ سے آیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی واضح کیا کہ وہ سینئر راہنماؤں کو اپنے والد محترم سے سالہا سال کے دیرینہ تعلقات کی وجہ سے حد درجہ احترام دیتی ہیں۔ وہ آگے چلنے کی بجائے ان کے پیچھے چلنے کو ترجیح دیں گی۔
انہوں نے پارٹی کی مقبولیت کے حوالہ سے بھی دو ٹوک انداز میں بتایا کہ اب بھی ہمارا کوئی رکن اسمبلی منحرف نہیں ہوا بلکہ دوسرے لوگ بھی پارٹی میں پورے ملک سے آنے کے لئے رابطے اور ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ انہوں نے واضح انداز میں کہا کہ اداروں میں ابھی تک جنرل (ر) فیض حمید کی باقیات عمران خان کو سپورٹ فراہم کر رہی ہیں۔ میاں نواز شریف کے کیسز کے حوالہ سے انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بیان کیا کہ سب کو علم ہوگیا ہے کہ ان جھوٹے مقدمات کو کس طریقہ سے بنایا گیا اورکون کون اس سازش میں شریک تھا۔
انہوں نے عدلیہ کے خاص ٹولے کو بھی اس کا مورد الزام ٹھہرایا اور حال ہی میں لیک ہونے والی عدالتی شخصیت کی آڈیو کے معاملہ کو اعلیٰ سطح پر سنجیدگی سے لینے کے علاوہ اس کی فرانزک کے بعد ذمہ داروں کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ سیاسی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے حالات میں آنے والی سیاست کے بارے میں یقین سے کچھ نہیں کہا جاسکتا؟