قومی سیا ست بے یقینی سے دو چار ہےاور اس بے یقینی میں ہر گزرتے دن کے ساتھ مزید اضافہ ہو ر ہا ہے۔ پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی اسمبلیاں تحلیل ہونے کے با وجود عمران خان ملک میں فوری طور پر عام انتخابات کی راہ ہموار نہیں کرسکے ۔ دو نوں صوبوں میں ان کی حکومت تھی جسے انہوں نے دبائو کے ہتھیار کے طور پر خود توڑا مگر پی ڈی ایم حکومت ان کے دباؤ میں نہیں آئی۔ ملک میں عام انتخابات تو اپنی جگہ جن صوبوں کی اسمبلیاں تحلیل ہوئی ہیں وہاں بھی انتخابات ہوتے نظر نہیں آ تے۔
عمران خان نے اب تک جتنے سیاسی فیصلے کئے وہ غلط ثابت ہوئے اور ان سے وہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنے میں نا کام رہے گویاسیا سی اعتبار سے وہ ایک نا کام کپتان ہیں۔ ان کی پونے چار سال کی کا کردگی بھی اچھی نہیں رہی ۔ ان کے دور میں مہنگائی میں مسلسل اضافہ ہوا۔ دوست ممالک سے تعلقات خراب ہوئے۔ قرضوں کے بوجھ میں اضافہ ہوا۔ گورننس اچھی نہیں رہی۔ میڈیا اور آئینی اداے دبائو کا شکار رہے۔ ان کی مقبولیت کا گراف تیزی سے گر رہا تھا۔ اگر وہ پانچ سال پورے کرتے تو ان کی سیاست کا فطری انداز میں خاتمہ ہوجاتا مگرپی ڈی ایم نے حکومت سنبھال کر ان کا سارا بوجھ اپنے کندھوں پر اٹھا لیا۔پی ڈی ایم کی حکومت کو قائم ہوئے دس ماہ ہوگئے ہیں۔
ان کے دور میں اتنی ریکارڈ مہنگائی ہوئی ہے کہ عمران خان کے دور کے تمام ریکارڈ ٹوٹ گئے ہیں۔ آئی ایم ایف سے مذاکرات کے نتیجے میں موجودہ حکومت نے منی بجٹ پیش کیا جسے قومی اسمبلی نے منظور کرلیا ہے۔ اس منی بجٹ کے نتیجے میں170ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگا ئے گئے ہیں۔ پیٹرول ‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا ہے۔اگرچہ موجودہ حکومت با ر بار یہ کہتے نہیں تھکتی کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ پی ٹی آئی حکومت نے کیا تھا اور ہم نے ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کیلئےیہ معاہدہ بحال کرایا ہے مگر اس سے انکار ممکن نہیں ہے کہ جن شرائط پر یہ بحالی کی گئی ہے اس نے عوام کی کمر توڑ دی ہے۔ عام آدمی کی قوت خرید ختم ہوگئی ہے۔ متوسط طبقے کا جینا مشکل ہو گیا ہے۔
پی ڈی ایم والے عمران خان کو طعنہ دیتے تھے کہ ڈالر کو 190روپے تک پہنچا دیا مگر اب خاموش ہیں۔ ان حالات میں اگر عام انتخابا ت ہوئے تو تمام تر نا کامیوں کے با وجود عمران خان کی کا میابی کے امکانات زیادہ ہیں ۔اسلئے کہ عوام اب مہنگائی کی وجہ سے پی ڈی ایم جماعتوں سے ناراض ہیں۔ پی ڈی ایم حکومت کو معاشی استحکام لانے اور عوام کو ریلیف دینے کیلئے وقت چاہئے۔یہی وجہ ہے کہ پی ڈی ایم حکومت پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں عام انتخابات کے التواء کی خواہش مند ہے۔
مختلف حیلوں بہانوں سے وقت کو گزاراجا رہا ہے تا آنکہ نوے دن کی معیاد گذر جائے۔ عمران خان اب پچھتا رہے ہیں کہ پنجاب اور کے پی کی حکومتیں بھی ہاتھ سے گئیں اور الیکشن ہوتے بھی نظر نہیں آرہے۔ اب کے پاس آخری کارڈ صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی کا تھا جسے انہوں نے استعمال کیا۔ صدر مملکت نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا۔ جواب نہ ملنے پر انہوں نے ناراضگی کا اظہار کیا اور چیف الیکشن کمشنر کو مشاورت کیلئے بلالیا۔ اس کے بعد صدر نے انتخابات کی تاریخ کا اعلان بھی کر دیا۔
بلاشبہ صدر مملکت کا آئینی عہدہ ہے مگر الیکشن کمیشن بھی آئینی ادارہ ہے۔الیکشن کمیشن نے صدر کو جوابی خط لکھ کر ان کی طبیعت صاف کردی اور آئین کا حوالہ دے کر بتادیا کہ صدر مملکت صرف قومی اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں اور اس کے الیکشن کی تاریخ دے سکتے ہیں۔
آئین کے تحت صوبائی اسمبلی کی تحلیل کا اختیار اور الیکشن کی تاریخ کا اختیار متعلقہ صو بائی گورنر کا ہوتا ہے۔اس طرح عمران خان نے جو صدر کا کارڈ کھیلا وہ بھی ان کے کام نہیں آیا۔ یوں لگتا ہے کہ عام انتخابات کا ایشو بالآخر عدالت میں جا کر طے ہوگا۔ عمران خان نے دس اپریل 2022 کو عدم اعتماد کی تحریک نا کام ہونے پر قومی اسمبلی چھوڑنے کا بھی غلط اور جذباتی فیصلہ کیا اور ایک اہم پار لیمانی مورچہ اپنے ہاتھ سے گنوا دیا۔
آج اگر وہ قومی اسمبلی میں ہوتے تو حکومت اتنی آ سانی سے ضمنی بجٹ پاس نہ کراسکتی۔ کم از کم پی ٹی آئی احتجاج کرکے عوامی نمائندگی کا حق تو ادا کرسکتی تھی۔ اسی طرح نیب ایکٹ میں ترامیم کیلئے بھی عمران خان نے خود حکومت کو واک اوور دیا جس کی شاندہی سپریم کورٹ نے بھی نیب ترمیمی ایکٹ کے خلاف در خواست کی سماعت کے دوران کی ہے۔ سپیکر نے جب پی ٹی آ ئی کے 70ممبران کے استعفے منظور کئے تو باقی 43ممبران اسمبلی جانے کو تیار ہوگئے مگر سپیکر نے ان کے استعفے بھی منظور کرلئے۔ اب عمران خان کو یہ احساس ہو رہا ہے کہ نگران وزیر اعظم کی تقرری میں اپوزیشن لیڈر کا اہم کردار ہے ۔ چیئر مین پی اے سی کا عہدہ اہم ہوتا ہے۔ مگر اب کیا پچھتائے ہوت جب چڑیا چگ گئیں کھیت۔
اب تو ڈپٹی سپیکر نے پارلیمنٹ لاجز سےپی ٹی آئی کو بیدخل کرنے کے نو ٹس جاری کرا دیے ۔ کچھ ممبران کے تالے توڑے گئے ۔مو جودہ حکومت کی پالیسی یہ ہے کہ اب پی ٹی آئی سے کوئی رعایت نہ برتی جا ئے۔ عمران خان کا ب سب سے مشکل سیاسی دور شروع ہونے والا ہے۔ اب انہیں بھی گرفتاری اور جیل کے مرحلہ سے گزر نا ہے۔ یہ بات بھی بہت دلچسپ ہے کہ عمران خان کار کنوں سے کہہ رہے ہیں کہ جیل بھروتحریک شروع کریں مگر خود گرفتاری کاشائبہ بھی ہو تو کارکنوں کو زمان پارک پہنچنے کی کا ل دے دیتے ہیں۔ ابھی تک تو شہباز گل ‘ اعظم سواتی، فواد اور شیخ رشید نے جیل یاترا کی ہےمگر اب عمران خان کے علاوہ بھی بہت سے لیڈر جیل جائیں گے۔
عمران خان اب بند گلی میں پہنچ گئے ہیں۔ ان کا امپورٹڈ حکومت کا بیانیہ بھی دم توڑ چکا ہے جس کا گلا خود انہوں نے اپنے ہاتھوں سے گھوٹا ہے۔ انہوں نے سائفر بیانیہ بنایا اور امریکہ پر اپنی حکومت گرانے کا الزام لگا یا اور بعد میں امریکی قیادت کو وضاحتیں کی گئیں۔ اب امریکہ پر حکومت گرانے کا الزام واپس لے کر سارا بوجھ جنرل (ر) باجوہ پر ڈال دیا ہے۔ان کے تمام بیانیے بیکار ثابت ہوئے اب انہیں صرف ایک ایشو سے سیا سی فائدہ مل سکتا ہے وہ ہے مہنگائی۔ عوام مہنگائی سے تنگ ہیں مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ وہ عمران خان کی شکل میں نجات دیکھتے ہیں۔
عمران خان کو تو قوم آ زما چکی ہے ۔ ایک ناکام وزیر اعظم ثابت ہوئے اب انہیں دوبارہ کوئی کیوں چانس دے گا البتہ عوام ملک کی سیا سی قیادت سے مایوس ضرور ہوئے ہیں۔ اس وقت ملک کی معیشت ناتواں ہے۔ دہشت گردی کے ایشو نے پھر سر اٹھا لیا ہے۔ پشاور کی پولیس لائنز کے بعد کراچی کے پولیس آفس پر دہشت گردوں کے حملہ سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ٹی ٹی پی اب دو بارہ منظم ہوچکی ہے۔ اس وقت سب سے پہلی تر جیح یہ ہونی چاہئے کہ دہشت گردی کا خاتمہ کیا جا ئے کیونکہ اس کے بغیر غیر ملکی سر مایہ کاری نہیں آسکتی۔ معیشت کو مستحکم بنا نے کیلئے خسارے میں جانے والے اداروں کی نج کاری، ڈائون سائزنگ اور غیر ضروری اخراجات کی کمی کے سخت فیصلے کئے جائیں۔ اس وقت ایشو یہ نہیں کہ الیکشن کب ہوں گے یا کون جیتے گا۔ ایشو یہ ہے کہ ریاست کو بچایا جائے جو کسی ایک سیا سی جماعت یا اتحاد کے بس کی بات نہیں ہے۔