• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شمع ناز

چھ سال کی زینب کو چڑیاں بہت اچھی لگتی تھیں۔ اُڑتی، پھدکتی، چہچہاتی چڑیاں دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتی۔ ہرے ہرے طوطے اسے خاص طور پر اچھے لگتے تھے۔ ایک بار اس نے اپنی ممی سے کہا کہ وہ طوطا پالنا چاہتی ہے لیکن ممی نے کہا کہ طوطے قید میں رہنا پسند نہیں کرتے، انہیں اپنی آزادی بہت پیاری ہوتی ہے۔

گھر کے سامنے درختوں پر بہت سی چڑیاں رہتی ہیں۔ خوب چوں چوں کرتی ہیں،انہیں دیکھا کرو۔ زینب نے ممی کی بات مان لی اور طوطا خریدنے کی ضد چھوڑ دی۔اسکول سے آنے کے بعد بالکونی میں کھڑے ہو کر طرح طرح کی چڑیوں کو دیکھتی۔ وہ سب برگد کے گھنے پیڑ پر بسیرا کرتی تھیں۔

پیڑ نے سب کو پناہ دے رکھی تھی۔

ایک دن زینب شام کو کمرے میں آئی تو دیکھا ایک چڑیا ان کے کمرے میں آگئی ہے۔

چھوٹی سی کالے رنگ کی لیکن بڑی پیاری،بڑی بھولی، پتلی سی دم تھی۔دم لگاتار اوپر نیچے ہل رہی تھی۔اس چڑیا کو اُس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔

زینب چڑیا کو کمرے میں دیکھ کر بہت خوش ہوئی۔ بھاگ کر ممی کو بلا لائی۔انہوں نے بتایا یہ شاما ہے۔بڑا میٹھا بولتی ہے اور خوب سیٹیاں بجاتی ہے،یہاں شاید بھنک کر آ گئی ہے۔چلو اسے واپس بھیج دیں، انہوں نے چڑیا کو ہشکایا، تاکہ وہ دروازے سے واپس چلی جائے۔

”یہ چڑیا ہے یا اس کا بچہ؟“زینب نے ممی سے پوچھا۔”یہ ممی چڑیا ہے“ ”تب تو اسے ضرور بھیج دیجئے۔اس کے بچے انتظار کر رہے ہوں گے۔“زینب نے کہا اور ممی کے ساتھ وہ بھی چڑیا کو ہشکانے لگی۔

چڑیا کچھ گھبرا گئی تھی۔

شام گہری ہونے سے اسے دکھائی بھی کم دے رہا تھا۔وہ کبھی کمرے میں لگی ٹیوب لائٹ پر بیٹھتی تو کبھی پھدک کر دیوار کی گھڑی پر کبھی پنکھے کے پروں پر اور کبھی بڑی سی پینٹنگ کے فریم پر بیٹھ جاتی۔ زینب اور ان کی ممی نے لاکھ کوشش کی لیکن وہ دروازے کی طرف گئی ہی نہیں۔

دروازہ بالکونی پر کھلتا تھا اور وہ ادھر ہی سے آئی تھی۔

”ایسا کرتے ہیں فی الحال اسے یہیں چھوڑ دیتے ہیں۔صبح اسے راستہ مل جائے گا۔“ممی یہ کہہ کر باورچی خانے میں چلی گئیں۔”ٹھیک ہے۔آج رات یہ ہماری مہمان رہے گی۔

“زینب خوش ہو گئی۔ کھانا کھانے کے بعد جب سب لوگ کمرے میں آئے تو پاپا نے کہا،اگر پنکھا چلایا گیا اور چڑیا اُڑی تو اس سے ٹکرا سکتی ہے۔ ٹکرائی تو اس کے بازو ٹوٹ جائیں گے، ہو سکتا ہے مر بھی جائے۔زینب بہت پریشان ہوئی۔ اُس نے پاپا سے کہا،جب تک چڑیا چلی نہیں جاتی تب تک پنکھا نہیں چلائیں گے۔

”گرمی بہت ہے“ممی پاپا نے فکر مند ہو کر کہا۔”ہم لوگ ایک رات ایسے ہی سو جائیں گے۔بغیر پنکھے کے۔ کھڑکیاں کھول دیجئے۔تھوڑی باہر کی ہوا آ جائے گی۔“ زینب نے تجویز پیش کی۔

ممی اس کی رحم دلی دیکھ کر خوش ہو گئیں۔ اس رات پنکھا نہیں چلا۔

کچھ دیر گرمی برداشت کرتے رہے پھر سو گئے۔ زینب اسکول جانے کی وجہ سے صبح سویرے اُٹھی۔اُٹھتے ہی چڑیا کو دیکھا۔ وہ پنکھے کے پر پر بیٹھی ہوئی تھی۔”اچھا ہوا جو پنکھا نہیں چلایا“ اس نے خوش ہو کر کہا۔ ممی نے چڑیا کو پھر ہشکایا۔

اس بار وہ تھوڑا سا ہی ادھر ادھر اُڑی۔ جلد ہی اسے دروازہ نظر آ گیا۔وہاں سے اُڑ کر وہ بالکونی سے نکلی اور سیدھی پیڑ پر جا بیٹھی۔ جاتے جاتے اس نے بڑی میٹھی سیٹی بجائی۔ ممی، وہ کہہ رہی ہے تھینک یو۔”زینب تالی بجا کر بولی۔“ ”اب اس کے بچے خوش ہو جائیں گے کہ ممی آ گئی۔“وہ جلدی جلدی اسکول جانے کے لئے تیار ہونے لگی۔ کلاس میں سب کو چڑیا کی کہانی سنانے کی جلدی جو تھی۔