طلعت فاطمہ
کسی ملک میں ایک بادشاہ حکومت کرتا تھا۔ اس کے پاس دولت کی کمی نہیں تھی۔ وہ سونے سے بنی چیزوں کو بہت پسند کرتا تھا۔ وہ سونے سے بنی ہوئی چیزیں جمع کرتا رہتا تھا۔ اپنے اس شوق میں اپنی رعایا کو بھول گیا تھا اُن کی بھلائی کے لیے کوئی کام نہیں کرتا تھا۔ اس لیے اس کے ملک کے لوگ بہت غریب تھے۔
اس کی ایک بڑی ہی پیاری بیٹی تھی جس کا نام ”میری گولڈ“تھا۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔اسے پھول بہت پسند تھے اورجب بھی موقع ملتا وہ باغ میں جاکر پھول جمع کرتی تھی۔ اس کی سالگرہ پر بادشاہ اسے سونے سے بنے ہوئے تحفے دیتا۔ایک دن جب وہ وزیر کے ساتھ باغ میں چہل قدمی کر رہا تھا تو وزیر نے اسے رعایا کی مدد کرنے کو کہا تو بادشاہ نے غصےسے کہا ”تم کو نہیں معلوم کہ میں دنیا کا امیر ترین بادشاہ بننا چاہتا ہوں۔ میں چاہتا ہوں کہ میں جس چیز کو چھوؤں تو وہ سونے کی ہو جائے۔“ وزیر نے کہا ”یہ تو بہت خطر ناک سوچ ہے۔ اس سے بہت نقصان ہو سکتا ہے۔“
بادشاہ نے کہا ”گستاخ ،خاموش ہو جاؤ اور مجھے مشورے مت دو۔“
اسی وقت وہاں سے ایک پری گزررہی تھی اس نے جب بادشاہ کی خواہش سنی تو اس نے لالچی بادشاہ کو سبق سکھانا چاہا۔ پری بادشاہ کے سامنے آئی اور کہا ”میں نے تمہاری خواہش سنی ہے اور اسے پورا کرنا چاہتی ہوں۔“بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا۔ پری نے کہا ”کل صبح تم کسی چیز کو ہاتھ لگاؤ گے وہ سونے کی ہو جائے گی۔“
بادشاہ یہ سن کر بہت خوش ہوا،اب اسے رات کو نیند ہی نہیں آرہی تھی کہ جلد ی سے صبح ہو اور اس کی خواہش پوری ہو۔اس نے اپنے آپ سے کہا ”کتنا اچھا ہو گا، جب میرے پاس ہر چیز سونے کی ہو گی۔“ صبح بادشاہ بہت جلد نیند سے جاگا اور جیسے ہی اپنے کمبل کو چھوا،تو کمبل سونے کا ہوگیا۔
بادشاہ بہت خوش ہوا،اب اس نے کرسی کو چھوا تو کرسی بھی سونے کی ہو گئی جگ کو چھوا وہ بھی سونے کا ہو گیا۔اپنے کمرے کی سب چیزوں کو سونے کا کرنے کے بعد بادشاہ اپنے محل کے باغ میں گیا۔ وہاں اس نے پھولوں کو چھوا تو وہ بھی سونے کے ہوگئے۔میری گولڈ کے پلے ہوئے ہرن اور خرگوش کو چھوا تو وہ بھی سونے کے ہو گئے، ہر چیز کو سونے کا بنا کر بادشاہ خوشی خوشی محل میں واپس آیا۔ناشتہ کرنے میز پر بیٹھا جیسے ہی اس نے سیب کو اٹھانا چاہا تو وہ سونے کا بن گیا۔ کھانے کے لیے جس چیز کو کھانے کے لیے اُٹھاتاوہ سونے کی بن جاتی ۔وہ ناشتہ نہ کرسکا۔
صبح جب شہزادی میری گولڈ اپنے محل کے باغ میں پھول توڑنے گئی تو وہاں کا عجیب نظارہ دیکھ کر حیران ہو گئی کہ سارے باغ اور اس کے پالتو جانور سونےکے تھے۔
وہ بہت اداس ہو گئی۔اس نے کہا”سب پھولوں کی خوشبو کھو گئی ہے۔ میرے پالتو جانور بھی حرکت نہیں کر رہے ہیں۔یہ ان سب کو کیا ہو گیا۔“ میری گولڈ یہ دیکھ کر بہت روئی، اور روتے ہوئے اپنے باپ کے پاس پہنچ گئی اور اس کی ساری بات بتائی۔
بادشاہ نے کہا”شہزادی مت رو،تمہیں تو خوش ہونا چاہئے کہ اب میں سب سے امیر بادشاہ ہوں۔“
یہ سن کر میری گولڈ خوش ہونے کے بجائے اور زیادہ رونے لگی۔ بادشاہ نے اپنی شہزادی کو چپ کرانے کے لیے اسے تھپکی دی تو بادشاہ کا ہاتھ لگتے ہی میری گولڈ سونے کی ہو گئی۔
ایک جیتی جاگتی شہزادی اب ایک سونے کا مجسمہ بن گئی۔یہ دیکھ کر بادشاہ بہت پریشان ہوا۔اس نے تمام حکیموں کو اپنے دربار میں بلایا تاکہ وہ شہزادی کا علاج کر سکیں،مگر اسے تو کوئی بیماری ہی نہیں تھی۔ تمام حکیموں نے بڑی کوشش کی کہ شہزادی کو واپسی اصلی حالت میں لاسکیں، مگر وہ ناکام رہے، اب تو بادشاہ غمگین ہو گیا۔
اس کی جیتی جاگتی شہزادی اب ایک سونے کا مجسمہ تھی، اور وہ اس کے لیے کچھ نہیں کر سکتا تھا۔بادشاہ نے اپنی اداسی کو دور کرنے کے لیے شہر کا دورہ کیا۔ دوپہر کے کھانے کا وقت ہو گیا تھا اور غریب سے غریب انسان بھی کھانا کھارہا تھا، مگر بادشاہ بھوکا تھا۔
اس نے صبح سے کچھ نہیں کھایا تھا اور اب لوگوں کو کھاتا دیکھ کر اس کو بھی بھوک لگی۔ لیکن وہ کھانے کو چھوتے ہوئے ڈرتا تھا۔ اسے ڈر تھا کہ جیسے ہی اس نے کھانے کی کسی چیز کو چھوا تو وہ سونے کی ہو جائے گی۔ بادشاہ نے یہ بھی دیکھا کہ محل سے باہر بہت سے بچے کھیل کود رہے تھے۔
یہ دیکھ کر وہ اداس ہو گیا کہ اب اس کی بیٹی کبھی نہیں کھیل سکتی۔بادشاہ اس لمحے کو کوس رہا تھا، جب اس نے یہ خواہش کی تھی کہ اس کے چھونے سے ہر چیز سونے کی ہو جائے۔
اس نے کہا ”کاش میں خواہش نہ کرتا تو آج مجھے یہ دن نہ دیکھنا پڑتا، شہزادی بھی ٹھیک ہوتی اور میں بھی پہلے کی طرح سکون اور آرام سے ہوتا۔‘‘ پچھتا تا ہوا وہ محل واپس آگیا۔ اچانک اس کے سامنے وہی پری آگئی۔اس نے بادشاہ سے پوچھا ”تم اداس کیوں ہو بادشاہ ،کیا اب تم سب سے بڑے امیر بادشاہ نہیں ہو؟“
بادشاہ نے کہا، ”اچھی پری! اب میں سب سے امیر بادشاہ ہوں، لیکن اتنا سونا بھی مجھے خوش نہیں کر سکا۔ اچھی پری مہربانی کرکے میری مدد کریں۔“
یہ سن کر پری جان گئی کہ اب بادشاہ کبھی لالچ نہیں کرے گا۔پری نے بادشاہ کو پانی سے بھرا ہوا پانی کا جگ دیا اور کہا ”اس جگ کا پانی ہر اس چیز پر چھڑک دو، جس کو تم نے چھواہے۔“ بادشاہ جگ لے کر پہلے باغ کی طرف بھاگا، جب اس نے پھولوں پر جگ کا پانی چھڑکا تو وہ پہلے کی طرح تازہ اور خوشبودار ہو گئے۔
یہ دیکھ کر بادشاہ بہت خوش ہوا۔اس نے شہزادی کے پالتو جانوروں پر پانی چھڑک دیا ،تووہ بھی دوڑنے بھاگنے لگے۔پھر وہ شہزادی کی طرف بھاگا اور شہزادی پر پانی چھڑکا تو میری گولڈ دوبارہ جیتی جاگتی انسان بن گئی۔
اس دن کے بعد بادشاہ نے لالچ سے توبہ کی اور اپنے ملک کی رعایا کے لیے فلاحی کام شروع کئے۔ اسے احساس ہو گیا تھا کہ سونا اور دولت ہی انسان کو خوشی نہیں دے سکتے۔ صرف نیکی انسان کو سچی خوشی دے سکتی ہے۔ اب وہ غریبوں کا ہمدرد اور نیک بادشاہ بن گیا تھا۔ اس لیے اس کے ملک کے لوگ اس کو اب بہت پسند کرنے لگے تھے۔