1979ء کا وہ دور تھا، جب ملک میں مارشل لاء نافد تھا۔ سچ لکھنے والے ہاتھ بندھے ہوئے تھے۔ اس دور میں فلم ’’مولا جٹ‘‘ کا ریلیز کرنا واقعی ایک بہت بڑی جرأت تھی، جب معلوم ہوا کہ اس فلم کا موضوع حق و صداقت اور انصاف ہے، تو فوراً سنسر بورڈ حرکت میں آگیا۔ فلم پر پابندی لگا دی گئی۔ سنسر سے اسے آزاد کرانے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ اپیل بورڈ سے تواسے آزادی مل گئی، مگر سنسر نے ایسا نہ ہونے دیا اور اس پر پابندی برقرار رکھی۔ پھر یہ اپیل فُل بورڈ میں جاکر پاس ہوئی اور بغیر کسی قطع و بُرید کے پاس ہو گئی۔ یہ پہلی پاکستانی فلم تھی، جو اپیل بورڈ نے بغیر کسی کٹینگ کے پاس کر دی۔
مولا جٹ، حق کے راستےپر چلنے والے ایک دلیر شخص کی کہانی تھی،فلم کے شروع میں ایک مظلوم لڑکی کُھلے سر ایک ظالم سے اپنی آبرو بچاتے ہوئے بھاگ رہی ہوتی ہے۔ بھاگتے بھاگتے یہ لڑکی ایک بہادر انصاف پسند شخص ’’مولا جٹ‘‘ کے گائوں میں داخل ہوجاتی ہے، تو اس کے سر پر اچانک ایک چارد آجاتی ہے۔ فلم کے آغاز میں ہی عورت کے تقدس کو دکھایا گیا تھا، جو اس کہانی کی بنیاد بنا۔ پُوری فلم میں مولا جٹ نے اس مظلوم عورت کے تقدس کو پامال کرنےوالے شخص ماکھا نَت اور اس کے خاندان سے لڑائی لڑی۔ اس نے یہ لڑائی نہ صرف اپنی زبان سے لڑی، بلکہ اپنے بازو کے طاقت کو بھی آزمایا اور پھر اپنا دفن کیا ہوا گنڈاسا بھی نکالا، جو اس کا ہتھیار تھا۔
مولا جٹ ایک علامتی کردار بن کر ابھرا۔ ایک ایسا کردار ثابت ہوا کہ کئی برس گزرنے کے بعد بھی لوگ آج تک اسے فراموش نہ کر پائے۔ اس فلم کا وِلن نُوری نَت تکبر اور فرعونیت سے بھرا ہوتا ہے۔ مولا جٹ اور نُوری نت کے بعد اس فلم کے دیگر چند اہم اور نمایاں کرداروں کی بات کرتے ہیں۔ اداکارہ آسیہ نے اس فلم میں مولا جٹ کی بے باک اور نڈر منگیتر ’’مکھو‘‘ کا کردار ادا کیا تھا، جسے بے حد پسند کیا گیا۔ فلم ’’وحشی جٹ‘‘ کے بعد آسیہ اور سلطان راہی کی جوڑی ہٹ ہو گئی تھی اور یہ اس وقت کی پنجابی فلموں کی ایک سپرہٹ جوڑی تھی۔
اداکارہ چکوری نے اس فلم میں دارو نتنی کا غضب ناک ایکشن سے بھرپور کردا ادا کیا،جو مصطفیٰ قریشی اور ادیب کی بہن کا تھا۔ ادیب (ماکھا نت) جب مولا جٹ کے گائوں سے زخمی حالت میں اپنے چہرے پہ زخموں کے نشان لے کر شکست کی حالت میں اپنی حویلی میں آتا ہے، تو دارو نتنی یہ شکست برداشت نہیں کر پاتی اور اپنے بھائی کو گولیاں مار کر ہلا ک دیتی ہے۔ اداکار کیفی اس فلم میں مولا جٹ کے دوست مودا گاڈی کے کردار میں نظر آئے۔ چکوری کے ساتھ اس کی منگنی کا اعلان فلم کا ہیرو ’’مولاجٹ‘‘ خود کرتا ہے، جسے چکوری کسی طرح بھی قبول کرنے کو تیار نہ تھی۔
اداکارہ سیما نے اس فلم میں سلطان راہی کی بھابھی ’’تانی‘‘ کا یادگار کردار کرتے ہوئے عمدہ اداکاری کی۔ خاص طور پر پر تانی جب مولاجٹ کو آواز دیتی ہے ’’وے مولیا آ‘‘ تو سینما ہال میں موجود فلم بین بے حدخوش اور متحرک ہو کر مولا جٹ کی آمد پر تالیاں بجاتے تھے۔ اسد بخاری،اس فلم میں ’’اکو نت ‘‘ کے کردار میں نظر آئے، جو چکوری کا منگیتر تھا، جب اسے معلوم ہوا کہ مولا جٹ نے اس کی منگیتر کو اپنے دوست مودا گاڈی کے ساتھ منسوب کی ہے، تو وہ اس کے گائوں پہنچ کر لاشوں کے ڈھیر لگا دیتا ہے اور پھر مولا جٹ کے ہاتھوں خود بھی ڈھیر ہو جاتا ہے۔
اداکارہ عالیہ اس فلم میں ایک مظلوم دیہاتی لڑکی کے مختصر کردار میں نظر آئیں، جس کے سر کا ڈوپٹہ ماکھا نت نے اتار لیا اور مولا جٹ نے آکر اس کے سر پر چادر ڈال دی، تو وہ خوشی سے دھمال ڈال کر گاتی ہے’’ روئے مان کے غرور اج ہنسنے مجبور‘‘ عالیہ نے اپنے اس مختصر کردار میں 1973 میں ریلیز ہونے والی سپرہٹ پنجابی فلم ’’ظلم دا بدلہ‘‘ کی یاد تازہ کر دی تھی۔
فلم کے ہدایت کار یونس ملک کے کریڈٹ پر اس فلم سے قبل کوئی بڑی فلم نہیں تھی۔ ’’مولاجٹ‘‘ نے یونس ملک اور منصف ناصر ادیب کی قسمت بدل دی تھی۔ مولا جٹ کے بعد شیر خان، یونس ملک کی ایک اور سپر ہٹ فلم تھی۔ فلم کی ڈائریکشن میں یونس ملک نے جو محنت کی، اس کا اسے پھل ایک شان دار کام یابی کی صورت میں ملا۔ ناصر ادیب نے مکالموں میں کمال کر دیا۔
انہوں نے اس فلم کے ایسے برجستہ اور بامعنی مکالمے لکھے، جو کرداروں کی طرح لوگوں کو آج بھی یاد ہیں۔ کہانی تو سرور بھٹی کے ذہن میں تھی، فلمی رنگ اور نوک پلک سنورانے میں ناصر ادیب نے بہت اعلیٰ صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔ ناصر ادیب اس فلم کی کام یابی کے بعد اسی خول میں پھنس کر رہ گئے اور ہر کہانی میں ان کا یہی رنگ شامل رہا۔ مولا جٹ کے بعد انہوں نے کوئی دوسری فلم ایسی نہ لکھی، جس میں مولا جٹ کا ٹچ نہ ملتا ہوں۔
محمد سرور بھٹی فلم کے پروڈیوسر، جنہوں نے فلم کی ضروریات اور اسکرپٹ کے لوازمات کو مد نظر رکھتے ہوئے کاسٹ اور کریڈٹ کا اعلیٰ انتخاب کیا اور پوری ٹیم کے ساتھ خود بھی ہر معاملے میں پیش پیش رہے۔ ان کی دل چسپی، ذہانت اور سرمائے نے مولا جٹ کو پنجابی باکس آفس کی سب سے بڑی فلم بنانے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ مولا جٹ نہ صرف پاکستان، بلکہ بھارت اور دیگر ممالک میں بھی بے حد پسند کی گئی۔
بالی وڈ میں تو اس کے چرچے اس قدر عام ہوئے کہ وہاں پراس فلم کو کئی بار کاپی کیا گیا۔ پتر جٹاں دے، رام کلی، جینے نہیں دوں گا اور دیگر فلمیں مولا جٹ کی نقل بنائی گئی۔ جب سرور بھٹی بھارت گئے، تو وہاں کی فلم انڈسٹری نے ان کا والہانہ استقبال کیا اور وہاں کے میڈیا نے لکھا ’’ مولا جٹ ان بھارت‘‘۔ اداکار دھرمیندر نے ان کی مہمان نوازی میں کوئی کسر نہ چھوڑی۔ سرور بھٹی کے کریڈٹ پرچن وریام، جٹ مرزا، حق مہر اور بازارِ حسن جیسی کام یاب فلمیں بھی رہیں۔ ان سب فلموں کو بھارت اور دیگر ممالک میں کاپی کیا گیا۔
مسعود بٹ اس فلم کے فوٹو گرافر تھے، جنہوں نے ہر فریم کو بڑی محنت اور ذہانت سے فلمایا، کلوزاپ، لونگ شارٹ، گھوڑوں کی ڈور، ایکشن، مار ڈھار کے علاوہ مصطفیٰ قریشی کی اینٹری کے شارٹس پر عوام نے خُوب داد تحسین دی۔ ضمیر قمر کی ایڈیٹنگ کا یہ کمال تھا کہ کسی منظر میں بوریت نہیں محسوس ہوئی۔ ایک خاص لمبائی میں تمام مناظر ایک ردھم کے ساتھ ایڈٹ کرنے میں وہ کام یاب رہے۔
مکالموں کی واضح اور شگاف آواز کی ریکارڈنگ رحمت علی کے فن کی مہارت تھی، جب کہ میوزک اور گانوں کی ری ریکارڈنگ سینئر ساؤنڈ ریکارڈسٹ ایم ظفر کے فن کی مرہون منت تھی۔ فلم کی موسیقی، موسیقار طافو اور ان کے بھائی نے ترتیب دیا۔ میک اپ مین رحمت علی (صدا بند نہیں) انہوں نے نوری نت ، چکوری اور آسیہ کو بہت خُوب صورت اور جاذب نظر انداز میں پیش کیا۔ باقی کرداروں کو بھی اچھا میک اپ کروایا۔ فائٹ ماسٹر پیا نے تمام ایکشن بہت عمدہ اور اعلیٰ انداز میں فلمائے۔
’’مولا جٹ ‘‘ جب پنجاب میں 9 فروری کو ریلیز ہوئی تواس کےسامنےکوئی فلم ریلیز نہ ہوئی۔ یہ مکمل تن تنہا میدان میں اتری، ملکی صورت حال، ہڑتالوں، کرفیو اور ہنگاموں کی وجہ سے نئی فلمیں ریلیز نہیں ہو رہی تھیں۔ پنجاب سرکٹ میں جو فلمیں، اس وقت اچھا بزنس کر رہی تھیں، ان میں فلم ’’وعدے کی زنجیر‘‘ جس میں اداکارہ انجمن بہ طور ہیروئن پہلی بار متعارف ہوئیں تھی۔ لاہور کے نغمہ سینما میں ہائوس میں جاری تھی۔
میٹروپول لاہور میں رانی، وحید مراد اور محمد علی کی سپرہٹ فلم ’’بہن بھائی ‘‘ کا بزنس میں زبردست ہو رہا تھا۔ کراچی اور سندھ سرکٹ میں مولا جٹ 23مارچ کو ریلیز ہوئی تھی۔ اس کے ساتھ نیف ڈیک کی کثیر سرمائے سے تیار ہونے والی اردو فلم ’’خاک اور خون ‘‘ کراچی کے لیرک سینما پر پیش کی گئی۔ پلازہ سینما میں ’’بہن بھائی‘‘ کام یابی سے اپنی نمائش جاری رکھے ہوئے تھی۔ ریوالی سینما میں فلم ’’ترانہ‘‘ کے کام یابی کے ترانے خوب بج رہے تھے۔ اس زمانے میں باہو پروڈکشنز کی فلم مولاجٹ کو پنجابی سینما میں جو شہرہ ٔ آفاق شہرت ملی۔ اس کی نظیر پاکستان کی فلمی تاریخ میں تلاش کرنا ناممکن ہے۔
مولا جٹ کی 42برس بعد بھی مقبولیت
پاکستانی فلموں کے معروف فلم ساز محمد سرور بھٹی اور ہدایت کار یونس ملک کی شہرہ آفاق، آل ٹائم بلاک بسٹر فلم ’’مولا جٹ‘‘ 9فروری 1979میں پنجاب سرکٹ میں ریلیز ہو کر شان دار کام یابی سے ہم کنار ہوئی، جو آج تک پنجابی سینما میں ایک ریکارڈ رکھتی ہے۔ لاہور کے مرکزی سینما شبستان میں9 فروری 1979 سے 4 فروری 1981 تک مسلسل دو سال تک چلنے والی اس فلم نے 104ہفتے اپنے مین تھیٹر پر مکمل کر کے باکس آفس پر ایک ایسا ریکارڈ بنایا، جو آج تک قائم ہے، جب کہ سائیڈ سینماؤں کے ہفتے ملا کر اس فلم نے 212 ہفتے مکمل کیے، جو اس فلم کا دوسرا بڑا ریکارڈ تھا۔
پنجاب اور خیبر پختونخواہ میں بلاک بسٹر قرار دینے والی یہ فلم کراچی اور سندھ سرکٹ میں 23مارچ 1979 کو گوڈین سینما میں ریلیز ہوئی اور شان دار کام یابی حاصل کر کے دیگر مین سینماؤں میں شفٹ ہو کر باکس آفس ہٹ قرار دی گئی۔ آج کئی سال کا عرصہ گزرنے کے باوجود یہ فلم عوام اور فلم میکرز کے ذہنوں میں اپنی انمٹ یادوں کے نقوش کے ساتھ موجود ہے، 1979 میں جب یہ فلم بنی تھی، تو اس کا بجٹ ساڑھے چودہ لاکھ تھا، جو اس دور کے حوالے سے ایک بہت کثیر رقم تھی، جب کہ اس دور میں ایک عام پنجابی فلم چھ لاکھ میں بن جاتی تھی۔ مولا جٹ کے بزنس کا اندازہ آپ اس بات سے لگائیں کہ اس دور میں اس فلم نے چار کروڑ روپے حکومت کو ٹیکس کی مد میں ادا کیے تھے۔
’’مولا جٹ‘‘ فلم ’’وحشی جٹ‘‘ کا سیکوئل تھی!!
’’مولا جٹ‘‘ بنانے سے قبل فلم ساز محمد سرور بھٹی نے فلم ’’وحشی جٹ‘‘ کے فلم ساز سے باقاعدہ اجازت لی، جب فلم مکمل ہو گئی، تو انہوں نے ’’وحشی جٹ‘‘ کے فلم ساز کو فلم دیکھنے کی دعوت دی ،نمائش سے قبل اسٹوڈیوز کے ہال میں اس فلم کو دکھانے کا اہتمام کیا گیا، وحشی جٹ کے پروڈیوسر نے فلم دیکھنے کے بعد محمد سرور بھٹی کی بےحد تعریف کی اور کہا بھٹی صاحب آپ نے بہت اعلیٰ فلم بنائی۔ میری فلم وحشی جٹ میں سب کچھ تھا، مگر نوری نت نہیں تھا، اس لیے وہ فلم اتنی بڑی فلم نہ بن سکی، جو یہ بن گئی۔
’’نوری نت ‘‘ کا ناقابلِ فراموش کردار
مولا جٹ کی کہانی فلم کے پروڈیوسر محمد سرور بھٹی نے ہدایت کار فیض ملک کو زبانی سُنا کر لکھوائی تھی۔ اس کہانی کا اہم کردار ’’نوری نت‘‘ جو اس فلم میں ریڑھ کی ہڈی ثابت ہوا۔ سرور بھٹی کے مطابق یہ کردار انہوں نے خود تخلیق کیا۔ ساری کہانی اور کیریکٹر جب مکمل ہو گئے تو سرور بھٹی نے ناصر ادیب سے رابطہ کیا اور کہانی دے کر انہیں فلم کے انداز میں اسکرپٹ لکھنے کو کہا، یہ کردار اداکار مصطفےٰ قریشی نے ادا کیا اور وہ امر ہوگئے۔
’’نوری نت‘‘ اس بلا کا نام تھا، جو رب سے صرف اپنے لیے دشمن مانگتا تھا۔ پنجاب کی شاید ہی کوئی جیل ایسی تھی، جہاں نوری نت مہمان نہ بنا ہو۔ مصطفےٰ قریشی کو جومقام اس کردار سے ملا، وہ کوئی دوسرا کردار نہ دلا سکا، جس طرح بالی وڈ میں اداکار امجد خان نے فلم ’’شعلے‘‘ میں ’’گبر سنگھ‘‘ بن کر کام یابی کا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا، اسی طرح نوری نت کا کردار بھی آج تک فلم شائقین فراموش نہیں کرسکے۔