کراچی (ٹی وی رپورٹ) سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے کہا ہے کہ حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی تضحیک آمیز تشریح کررہی ہے، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کو سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایسی تشریح زیب نہیں دیتی، سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن نہ کرانے سے توہین عدالت لگے گی، 90روز کے بعد پنجاب کی نگراں حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی۔وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں ن لیگ کے وکیل منصور اعوان اور اسلام آباد ہائیکورٹ بار کے صدر عابد زبیری بھی شریک تھے۔منصور اعوان نے کہا کہ صوبائی انتخابات سے متعلق پٹیشن سپریم کورٹ میں قابل سماعت نہیں تھی، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل کا فیصلے میں اختلافی نوٹ نہیں آرڈر ہے، سات رکنی بنچ میں سے دوججز بنچ سے خود علیحدہ نہیں ہوئے تھے۔ عابد زبیری نے کہا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ واضح ہے کہ یہ تین دو سے آیا ہے، آئین کے مطابق نگراں حکومت 90روز سے ایک دن زیادہ نہیں رہ سکتی،سابق وزیراعظم نظام میں بہتری چاہتے ہیں تو جدوجہد کرنا ہوگی، ہائیکورٹ کے احاطے میں صحافیوں پر تشدد کے واقعہ پر چیف جسٹس انتظامی نوٹس لے سکتے ہیں۔سابق گورنر پنجاب سردار لطیف کھوسہ نے کہا کہ وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ جید وکیل ہیں انہیں سپریم کورٹ کے فیصلے کی ایسی تشریح زیب نہیں دیتی، یہ بات واضح ہے کہ سات رکنی بنچ ختم کر کے پانچ رکنی بنچ بنادیا گیا تھا، حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے کی تضحیک آمیز تشریح کررہی ہے، آئین کے مطابق الیکشن 90دن میں کروانا لازم ہے جج صاحب نے کوئی نئی بات نہیں لکھی، میں حیران ہوں سپریم کورٹ پنجاب کے گورنر پر کیوں نرم رہی ہے، فیصلے کے مطابق گورنر پنجاب الیکشن کی تاریخ کا اعلان نہیں کرے تو صدر مشاورت کر کے صوبائی اسمبلی کی تاریخ بھی دے سکتا ہے، جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس جمال مندوخیل نے اختلافی نوٹ میرٹ پر نہیں بلکہ ٹیکنیکل بنیاد پر دیا ہے۔لطیف کھوسہ کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد الیکشن نہ کرانے سے توہین عدالت لگے گی، پیپلز پارٹی نہ آئین سے ماورا کوئی قدم اٹھائے گی نہ اس کا حصہ بنے گی، ازخود نوٹس کی ابتداء سے کہہ رہا ہوں حکومت آئینی مینڈیٹ پر عملدرآمد کروائے گی، ضیاء الحق نے 90روز میں الیکشن کا وعدہ کر کے گیارہ سال حکومت کی، اسی لیے آئین میں الیکشن کیلئے 90روز کی مدت لازمی قرار دی گئی۔لطیف کھوسہ نے کہا کہ 90روز کے بعد پنجاب کی نگراں حکومت کی کوئی حیثیت نہیں ہوگی، اس کا مطلب حکومت آئینی بحران پیدا کرنا چاہتی ہے۔