• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

وزیراعظم کی مضبوط مالی حیثیت: تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں حائل

پی ٹی آئی کی جیل بھرو تحریک کے اعلانات پر پی ٹی آئی آزاد کشمیر کے کارکنان عملی طور پر لاتعلق نظر آئے صرف سابق وزیراعظم سردار عبدالقیوم خان نے گرفتاری پیش کرنے کا اعلان کیا۔ جبکہ آزاد کشمیر میں اپوزیشن کی جانب سے گزشتہ ایک سال سے جاری تحریک عدم اعتماد کی کوششیں اب ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہیں۔ اس حوالے سے کئی سازشی کہانیوں کی بازگشت سنائی دے رہی ہے۔ زرائع کے مطابق سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اب تحریک انصاف آزاد کشمیر کی حکومت کیخلاف تحریک عدم اعتماد کے معاملات اپنے ہاتھ میں لے لیے ہیں۔ 

یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ وزیر اعظم آزاد کشمیر نے آصف علی زرداری کو آفر دی ہے کہ ہر وہ کام جو بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کر سکتے ہیں وہ پیپلز پارٹی کیلئے کرنے کو تیار ہیں۔ اسلیے پیپلز پارٹی میں شمولیت کے معاملے میں بیرسٹر سلطان محمود چوہدری پر، انھیں فوقیت دی جائے کچھ حلقوں کے مطابق وزیراعظم آزاد کشمیر کی مضبوط مالی حیثیت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی میں حائل ہے اور انکی حکومت کو نہ چھیڑا جائے۔ تاہم آزاد کشمیر میں تحریک عدم اعتماد کا جاری طویل کھیل، رواں سال اپنے منطقی انجام کو پہنچنے کی توقع کی جارہی ہے۔ 

آزاد کشمیر کے اندرونی حالات کا اگر سرسری جائزہ لیں تو ایک جانب پاکستان و گلگت بلتستان کی طرح آزاد کشمیر میں بھی یکم مارچ سے ساتویں مردم شماری و خانہ شماری کا آغاز ہو گیا ہے اور دوسری جانب جماعت اسلامی آزاد کشمیرکی کال پر بدترین مہنگائی کیخلاف آزاد کشمیر میں ریاست گیر مظاہرے کئے گئے ۔ مقررین کا کہنا تھا کہ اگلے مرحلہ پر منظم احتجاجی تحریک شروع کی جائے گی۔ آزاد کشمیر کے عوام کی اکثریت یہ سمجھتی ہے کہ آزاد کشمیر کا اصل مسئلہ معاشی و سیاسی عدم استحکام ، حکمرانوں کی شاہ خرچیاں اور ناقابل برداشت مہنگائی ہے۔ 

آزاد کشمیر میں سفید پوش طبقات کا مہنگائی کی وجہ سے دن دیہاڑے معاشی قتل جبکہ غریب آدمی کے پاس خود کشی اورجرم کے علاوہ کوئی آپشن نہیں بچا۔ عام آدمی کی قوت خرید جواب دے چکی ہے۔ حکومت آزاد کشمیر اور اپوزیشن کی سرگرمیاں قانون ساز اسمبلی (مظفرآباد) اور کشمیر ہائوس (اسلام آباد) تک محدود ہو چکی ہیں۔ آزاد کشمیر کی عوام کا کوئی پرسان حال نہیں۔ مقبوضہ جموں و کشمیر کے عوام پر وہاں کی قابض فورسز نے 5اگست 2019 سے مظالم کی انتہا کر رکھی ہے۔ 

اگر ان کے حق میں آزاد کشمیر سے بھی کوئی سڑکوں پر نہیں نکلے گا تو UNO اور عالمی برادری سے توقع رکھنا فضول ہے۔ مقبوضہ جموں و کشمیر میں آل پارٹیز حریت کانفرنس کے دفتر کا خاتمہ اور تاریخی 'مغل گارڈن"کے نام کی تبدیلی جبکہ آزاد کشمیر میں کشمیر لبریشن سیل کے نام کی تبدیلی کے بعد آزاد کشمیر کے ترانے میں ترمیم پر جاری ،کام محض اتفاق ہے، سے زیادہ کچھ نہیں کہا جا سکتا۔ تاہم آزاد کشمیر میں آزاد جموں و کشمیر سپریم کورٹ کے حکم پر 31سال بعد ہونے والے بلدیاتی الیکشنز جو گزشتہ 2ماہ سے حیران کن طور پر مختلف مراحل سے گزر رہے ہیں اب آخری مرحلے پر آزاد جموں و کشمیر الیکشن کمیشن نے میئر ، ڈپٹی میئر ، چیئرمین اور وائس چیئرمین کے انتخابات کیلئے 2مارچ کے شیڈول کا اعلان کیا ہے۔ 

خوش آئند بات یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر پر اتفاق رائے کے بعد حکومت اور اپوزیشن اس جاری شیڈول میں مزید 10دن کی توسیع کے مطالبے پر متحد متفق نظر آتی ہیں۔ سنجیدہ مکتبہ فکر کا کہنا ہے کہ آزاد کشمیر حکومت آئے روز ترقیاتی بجٹ پر کٹ لگانے کی شکایت کرتی نظر آتی ہے۔ جس طرح وفاقی کابینہ نے مالیاتی بحران کے پیش نظر تمام وفاقی وزراء ، مشیروں ، وزرائے مملکت اور معاونین خصوصی نے رضاکار انہ طور پر تنخواہیں اور مراعات نہ لینے اور یوٹیلٹی بلز اپنی جیب سے ادا کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ آزاد کشمیر کابینہ بھی اس اچھی مثال کی تقلید کرتے ہوئے نئے ماڈل کی گاڑیوں کی خریداری ترک کرے اور مراعات و تنخواہیں نہ لینے کا اعلان کریں۔ اوربچت کے اس پیسے سے غریب عوام کو ریلیف دیکر ان کی مشکلات میں کمی لاسکتے ہیں ۔ 

چیف جسٹس آزاد جموں و کشمیر راجہ سعید اکرم خان کی سربراہی میں "سٹیٹ جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی " کے ساتھ سینئر جج سپریم کورٹ جسٹس خواجہ میں نسیم (ممبر) چیف جسٹس ہائی کورٹ صداقت حسین راجہ (ممبر) اور جسٹس میاں عارف حسین پر مشتمل کمیٹی نے انتہائی اہم فیصلے کیے۔ کمیٹی کے 13ویں اجلاس میں ترکیہ ، شام اور لبنان میں زلزلہ کے دوران شہید اور زخمی ہونے والوں کے ساتھ دلی ہمدردی کا اظہار اور دعائے مغفرت کرنے کے علاوہ سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کے معزز جج صاحبان نے اپنے 5ایام ، ماتحت عدلیہ کے گریڈ 20و بالا آفیسران 3ایام ، عدلیہ کے گریڈ 20سے کم کے دوسرے تمام ملازمین 2ایام کی بنیادی تنخواہ ترکیہ ، شام اور لبنان کے زلزلہ متاثرین کیلئے بطور عطیہ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ 

گزشتہ اجلاس میں کئے جانے والے فیصلے کے باوجود ریٹائرڈ شخصیات اور کچھ دیگر ریاستی اداروں کے سربراہان /عہدیداران ، سپریم کورٹ ، ہائی کورٹ /شریعت کورٹ کے سرکاری نشانات ، فلیگ راڈ، مونوگرام، گرین پلیٹس وغیرہ استعمال کر رہے ہیں۔ کمیٹی نے "سیکرٹری جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی " کو ہدایت کی کہ تمام ریٹائرڈ شخصیات کو سربمہر لفافوں میں مکتوب جاری کیے جائیں اور انہیں بتایا جائے کہ یہ عمل غیر قانونی ہے۔ 

اگر اس پر عملدرآمد نہ ہوا تو ضلعی انتظامیہ کے زریعے فلیگ راڈز وغیرہ ہٹا دیے جائیں۔ "اسٹیٹ جوڈیشل پالیسی میکنگ کمیٹی"کے اس فیصلے کو وکلا برادری اور عوام میں بڑے پیمانے پر سراہا جا رہا ہے۔ بغیر استحقاق ، غیر قانونی فلیگ راڈز، مونو گرام وغیرہ کی آڑ میں پولیس ناکوں پر عدم چیکنگ کے باعث سماج دشمن عناصر کا ناجائر فائدہ اٹھا کر ریاست کے لئے چیلنج بن سکتے ہیں۔

تجزیے اور تبصرے سے مزید
سیاست سے مزید