عطا عابدی
گو اڑاتے ہیں ابھی دھولیں ہم
چاہتے ہیں کہ فلک چھو لیں ہم
ہو بزرگوں کی دعاؤں میں اثر
باغ ہستی میں پھلیں پھولیں ہم
علم کا شوق ہو دل میں اتنا
سبق اپنا نہ کبھی بھولیں ہم
شاد و آباد رہے یہ بچپن
اور جھولوں پہ یونہی جھولیں ہم
قوت خیر عطا ہو اتنی
ڈھیلی شر کی کریں سب چولیں ہم
اپنی تقدیر کے ہم ہیں معمار
اپنا منصب نہ کبھی بھولیں ہم