اسلام آباد (اے پی پی) وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہا ہے کہ پاکستان بڑی قربانیوں کے بعد معرض وجود میں آیا، یہ اقوام عالم میں اپنا کھویا ہوا مقام ضرور حاصل کریگا، معیشت کیلئے سیاسی استحکام ضروری ہے، لیڈر میں انا، تکبر نہیں ہوتا، معاشی اصلاحات، معاشی ایجنڈا، کفایت شعاری سمیت دیگر اہم ترین اقدامات اور معاملات پر پوری سیاسی قیادت کو اپنے سیاسی اختلافات ایک طرف کرکے مل بیٹھ کر فیصلے کرکے اس پر عمل پیرا ہونا ہو گا، آج عدالتوں اور قانون کی دھجیاں اڑائی جارہی ہیں، قومی اور عوامی مفاد کو داؤ پر نہیں لگنے دینگے، آئی ایم ایف کا پروگرام جلد ہونے کی توقع ہے تاہم یہ مستقل حل نہیں، آج عدلیہ، قانون، آئی ایم ایف، معاہدے سمیت ہر چیز روندی گئی، ہماری حکومت کو امپورٹڈ حکومت کہا گیا کہ اسکے پیچھے امریکا ہے، پھر ایک بیانیہ بنایا گیا اور پھر یوٹرن کے بادشاہ نے اس سے بھی یوٹرن لیا کہ اسکے پیچھے امریکا نہیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے گزشتہ روز سینیٹ آف پاکستان کی 50 سالہ گولڈن جوبلی تقریبات کے دوسرے روز کمیٹی آف دی ہول سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ خطاب کی مزید تفصیلات کے مطابق وزیراعظم نے کہا کہ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان اس وقت مشکل چیلنجوں سے گزر رہا ہے، جب ہم نے اقتدار سنبھالا تو اس وقت ہماری معیشت کو بڑے بحرانوں کا سامنا تھا، بدقسمتی سے گذشتہ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کئے، معاہدہ کیا لیکن ہم نے ان شرائط کا پاس نہیں کیا، اس نے نہ صرف آئی ایم ایف بلکہ دیگر عالمی اداروں میں پاکستان کی ساکھ اور اعتماد کو نقصان پہنچایا۔ وزیراعظم نے کہا کہ ان حالات میں ہم نے ایک آئینی طریقہ کار اختیار کرتے ہوئے حکومت سنبھالی، اس وقت ہمیں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا جن میں دو بڑی مشکلات درپیش تھیں جن میں ایک گذشتہ حکومت کی جانب سے فنڈز کا بے دریغ استعمال تھا۔ وزیراعظم نے کہا کہ گو کہ ہم اس وقت مشکل حالات سے گزر رہے ہیں لیکن اگر آپ اپنے مشن سے مخلص ہوں تو ان مشکل حالات سے بھی نکلیں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ ہم کوئی فرشتے نہیں ہیں، ہم سے بھی خطائیں ہوتی ہیں لیکن ہم اپنی غلطیوں سے سیکھتے ہیں، جو شخص اپنی غلطی کو تسلیم کر لے وہ بڑا انسان ہوتا ہے، ماضی میں شدید اختلافات کے باوجود پاکستان کے عظیم تر مفاد کیلئے سیاسی قیادت مل بیٹھتی تھی، پاکستان کی تاریخ میں کئی ایسے مواقع آئے جب سیاسی قیادت اور مختلف شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے زعماء مل بیٹھے اور بڑے سے بڑے بحرانوں پر گفت و شنید کی اور انکے حل نکالے، 1965ء کی جنگ میں پوری قوم ایک لڑی میں پروئی ہوئی تھی اور وطن کے دفاع کیلئے سب ایک تھے۔ وزیراعظم نے کہا کہ 1971ء کی جنگ کے بعد جب وزیراعظم شملہ روانہ ہوئے تو پورے ملک کے زعماء اور قیادت انہیں الوداع کہنے لاہور ایئرپورٹ پر موجود تھی کہ وہ جا کر پاکستان کا مقدمہ لڑیں، 2014ء میں جب دہشت گردی سے پوری قوم پریشان تھی اور دہشت گردی ہر طرف پھیلی ہوئی تھی اس دہشت گردی کے خلاف اس قوم نے بے پناہ قربانیاں دیں۔ اسی طرح فروری 2019ء میں ہندوستان کے جہازوں نے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی،یہ ایک قومی مسئلہ تھا کسی کی ذات کا مسئلہ نہیں تھا، یہ پاکستان کے دفاع اور سالمیت اور 22 کروڑ عوام کی ناموس کا معاملہ تھا اس کیلئے ہم اکٹھے ہوئے تھے، ڈیڑھ گھنٹہ بعد جنرل (ر) باجوہ نے ہمیں پریزنٹیشن دی لیکن وزیراعظم اس بحرانی صورتحال میں بھی ہمارے ساتھ نہیں بیٹھے، قوم کا لیڈر انا پرست نہیں ہوتا، اس میں تکبر، غصہ نہیں ہوتا بلکہ وہ محبتیں بانٹتا ہے، سب کے ساتھ مل کر مسائل کا حل نکالتا ہے، محبت، یگانگت، یکسوئی اور پاکستانیت کا پیغام دیتا ہے، آج سیاستدان گالی بن چکا ہے، آج پاکستان کے نظام کو تہہ و بالا کرنے کیلئے اسے آخری دھکا لگایا جا رہا ہے، میں نے اپنی زندگی میں اس طرح کے مخدوش اور خراب حالات نہیں دیکھے، عدالتوں کے احکامات اور قوانین کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں۔