اسلام آ باد ( تجزیہ:… رانا غلام قادر ) لاہور ہائیکورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین کی 9 مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کرتے ہوئے پولیس کو عمران خان کے خلاف 21 مارچ تک کارروائی سے روک دیا۔ عدالت نے عمران خان کے خلاف اسلام آباد میں درج مقدمات میں 24 مارچ تک اور لاہور میں درج مقدمات میں 27 مارچ تک حفاظتی ضمانت منظور کی۔دریں اثنا ء اسلام آباد ہائیکورٹ نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کو گرفتار کرنے سے روک دیا۔چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے توشہ خانہ فوجداری کیس میں وارنٹ منسوخی کی درخواست مسترد ہونے کا فیصلہ اسلام آباد ہائیکورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ان دونوں ہائی کورٹس سے ملنے والے ریلیف پر پی ٹی آئی کے ورکرز جشن منا رہے ہیں۔اسے انصاف کی فتح اور قانون اور آئین کی با لا دستی قرار دے ہیں ۔ عمران خان کو ملنے والا ریلیف سوشل میڈیا میں موضوع بحث بن گیا ہے۔دوسری جانب دوسری سیا سی جماعتوں کے کارکن تنقید اور مایوسی کا اظہار کر رہے ہیں ۔ ان کا موقف یہ ہے کہ اس ریلیف سے نہ صرف پنجاب پولیس بلکہ ملک بھر کی پولیس کی حوصلہ شکنی ہو ئی ہےکیونکہ عدالتی حکم کی تعمیل کرانے کیلئے پنجاب پو لیس کو پتھراؤ ‘ ڈنڈوں اور پیٹرول بموں کا سامنا کرنا پڑا جس سے ڈی آئی جی سمیت پولیس کے 58افسر اور اہل کار زخمی ہوئے۔سیا سی حلقوں کا کہنا ہے کہ اس سے پی ٹی آئی کے جارحیت اور عسکریت پسند کارکنوں کی حوصلہ افزائی ہوئی ہے اور اس کے نتیجے میں ملک میں جارحانہ طرز عمل کا کلچر فروغ پائے گا ۔ جمہوری اقدار کو ضعف پہنچے گا۔ہائی کورٹس سے ریلیف ملنے کے علاوہ عمران خان کی آج توشہ خانہ کیس میں ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں پیشی کیلئے عدالت کا مقام ہی تبدیل کردیاگیا ہے۔توشہ خانہ کیس کی سماعت جوڈیشل کمپلیکس منتقل کردی گئی اور اب ان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی سماعت ایف ایٹ کچہری میں نہیں ہوگی۔چیف کمشنر اسلام آ باد نے یہ فیصلہ بھی پی ٹی آئی کے مطالبہ پر کیا ۔عمران خان کا کہنا ہے کہ ایف ایٹ کچہری میں پیشی کی صورت میں ان کی جان کو خطرہ ہے۔عمران خان کو عدالتوں سے ریلیف ملنے کا تاثر عوامی سطح پر تقویت اختیار کر رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ عمران خان کو اعلیٰ عدلیہ سے ریلیف کا ایک ٹریک ریکارڈ ہے جس کی وجہ سے اس تاثر نے جنم لیا ہے۔ان کے مطابق پچھلے سال 25مئ کو عمران خان نے اسلام آ باد کی طرف لانگ مارچ کا اعلان کیا تو سپر یم کورٹ نے حکم دیا کہ وہ ایف نائن پارک میں پڑاؤ کریں اور جلسہ کریں لیکن عمران خان ڈی چوک پہنچ گئے ۔ حکومت نے توہین عدالت کی درخواست دی جس پر پانچ رکنی بنچ تشکیل دیا گیا مگر اس کی سماعت ابھی تک زیر التواء ہے۔یہ بھی ریمارکس سنے گئے کہ ہوسکتا ہے کہ عمران خان کو اس کی اطلاع ہی نہ ہو حالانکہ میڈیا پر سپریم کورٹ کا حکم سنادیاگیا تھا۔آرٹیکل 63اے کی تشریح میں بھی عمران خان کو ریلیف ملا اور پی ٹی آئی کے ایم پی ایز کو نا اہل کردیاگیااور ان کے ووٹ بھی شمار نہیں کئے گئے۔ یہ رائے بھی سامنے آئی کہ یہ آئین کو تحریر کرنے کے مترادف ہے۔ پرویز الہیٰ کیس میں بھی انہیں ریلیف ملا ۔ چوہدری شجاعت حسین پارٹی سر براہ تھے جنہوں نے ق لیگ کے دس ایم پی ایز کو حکم دیا کہ وہ حمزہ شہباز کو ووٹ دیں مگر فیصلہ یہ دیاگیا کہ یہ اختیار پا ر لیمانی پارٹی کا ہے ۔ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال کی عدالت میں عمران خان مسلسل چار مرتبہ غیر حاضر ہوئے ۔ ان کے وارنٹ گرفتاری نکلے تو اسلام آ با دہائی کورٹ نے سات مارچ کو یہ ریلیف دیا کہ ان کے وارنٹ گرفتاری معطل کردیے گئے اور عمران خان کو ہدایت کی گئی کہ وہ 13مارچ کو عدالت میں پیش ہوں مگر عمران خان پھر بھی پیش نہ ہوئے حالانکہ وہ اس روز دوسری عدالت میں پیش ہوئے تھے۔اسلام آ باد ہائی کورٹ نے جوڈیشل مجسٹریٹ زیبا چوہدری کیس میں بھی عمران خان کو ریلیف دیا اور ان کی معافی قبول کرلی گئی جونیم دلانہ انداز میں مانگی گئی۔ان کے خلاف جو مقدمہ درج کیا گیا تھا اس میں بھی دہشت گردی کی دفعات کو نکال کر ریلیف دیاگیا۔ سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف توہین آمیز کلمات پر توہین عدالت کیس میں بھی ان کی نیم دلانہ معافی قبول کر لی گئی ۔