لندن (مرتضیٰ علی شاہ) وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کے سابق سربراہ بشیر میمن نے انکشاف کیا ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کے اس وقت کے پرنسپل سیکرٹری اعظم خان نے اسلام آباد کے تاجر میاں ناصر جنجوعہ کو جج ارشد ملک ویڈیو اسکینڈل میں پاکستان مسلم لیگ نواز (پی ایم ایل این) کی سینئر نائب صدر مریم نواز کے خلاف جھوٹا اعترافی بیان دینے پر مجبور کرنے کیلئے بار بار انہیں تمام قانونی اور غیر قانونی طریقے بشمول تشدد اور انسداد دہشت گردی کے قوانین کا استعمال کرنے پر مجبور کیا ۔ ایف آئی اے کے سابق ڈائریکٹر جنرل نے کہا کہ انہوں نے سابق وزیراعظم اور ان کے پرنسپل سیکرٹری کے غیر قانونی احکامات ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ میمن نے کہا کہ جولائی 2019 میں مریم کی جانب سے مسلم لیگ (ن) کے دیگر اہم رہنماؤں کے ساتھ پریس کانفرنس اور سابق احتساب جج ملک کی ویڈیو جاری کرنے، جس میں اعتراف کیا گیا کہ انہیں 2018 کے عام انتخابات سے قبل العزیزیہ کیس میں نواز شریف کو سزا سنانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کی شخصیات کی جانب سے بلیک میل کیا گیا اور دباؤ ڈالا گیا تاکہ عمران خان کے وزیر اعظم بننے کی راہ ہموار کی جا سکے، کے بعد عمران خان بہت برہم تھے۔ میمن کا مزید کہنا تھا کہ اس پریس کانفرنس کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں منصوبہ بندی کی گئی کہ جنجوعہ، جو کہ نواز کے 30 سال پرانے قابل اعتماد دوست اور معروف کارپوریٹ کمپنی MIDJAC کے مالک ہیں، کو اصل مجرم بنایا جانا چاہیے کیونکہ وہ ایک بزنس مین ہیں اور مریم اور مسلم لیگ (ن) کی سینئر قیادت کے خلاف وعدہ معاف گواہ بننا آسان ہدف ہوگا۔ میمن نے کہا کہ پی ایم ہاؤس سے طاقتور بیوروکریٹ اعظم خان باقاعدگی سے اس بات پر اصرار کرتے تھے کہ جنجوعہ کو مریم اور ن لیگ کے دیگر رہنماؤں کے خلاف ہونے پر مجبور کیا جائے یہ کہنے کیلئے کہ اس (ناصر جنجوعہ) نے جج ارشد ملک کو بلیک میل کرکے ان کی اعترافی ویڈیو ریکارڈ کی تھی جسے مریم نے پریس کانفرنس میں استعمال کیا تھا۔ میمن نے کہا کہ انہیں میاں ناصر جنجوعہ کے خلاف یہ احکامات وزیراعظم ہاؤس میں عمران خان سے ملاقاتوں کے دوران دئیے گئے تھے اور اعظم نے واٹس ایپ پیغامات میں MIDJAC کے مالک کے خلاف کارروائی کے لیے فالو اپ کرتے تھے۔ میمن نے انکشاف کیا کہ ایف آئی اے نے میاں ناصر جنجوعہ سے پہلے اور خاص طور پر ایف آئی اے کی تفتیشی جے آئی ٹی کی جانب سے جسمانی ریمانڈ کے دوران تمام پہلوؤں سے تفتیش کی تھی لیکن ان کے خلاف کسی بھی مبینہ الزام میں ایک بھی قابل اعتراض ثبوت نہیں ملا۔