اسلام آباد(نیوزایجنسیاں) پنجاب اور خیبرپختونخوامیں الیکشن ملتوی کرنے کیخلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے کہ ایمرجنسی لگا کر ہی الیکشن ملتوی کئے جا سکتے ہیں، انہوں نے انتخابات کیلئے ججز کی تنخواہوں میں کٹوتی کی تجویز دیدی،انکا کہنا تھا کہ الیکشن کیلئے پورے بجٹ کی ضرورت نہیں،20ارب کیلئےکٹ ہماری تنخواہوں پربھی لگایا جاسکتا ہے، حکومت اخراجات کم کرکے 20 ارب نکال سکتی ہے۔ انہوں نے کہا پہلے الیکشن کمیشن کے دائرہ اختیارکو دیکھنا ہے، سیاسی جماعتوں کے فریق بننے کا معاملہ بعد میں دیکھیں گے، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بدقسمتی سےکوئی شک نہیں کہ 90دن میں اب انتخابات نہیں ہوسکتے، کیا اس معاملے کو جمہوری طریقے سے حل نہیں کیا جاسکتا تھا؟جسٹس منیب نے کہا اگر انتخابات ممکن نہیں تھے تو الیکشن کمیشن عدالت سے رجوع کرتا،وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہاموجودہ سیاسی ومعاشی حالات میں ملک کیلئےکیا بہتر ہے، سیاسی جماعتیں اسٹیک ہولڈرز ہیں ، انہیں لازمی سنا جائے جبکہ اٹارنی جنرل منصور عثمان نے کہا یہ اہم معاملہ ہے،بینچ مناسب سمجھے تو فل کورٹ بنا دے۔چیف جسٹس پاکستان عمر عطا بندیال کی سربراہی میں 5 رکنی لارجر بینچ نے گزشتہ روز دوبارہ سماعت کی، بینچ میں جسٹس اعجازالاحسن، جسٹس منیب اختر، جسٹس امین الدین اور جسٹس جمال خان مندوخیل شامل ہیں۔ سماعت شروع ہوئی تو چیف جسٹس پاکستان نےمزید کہا کہ اس سماعت کو بہت لٹکانا نہیں چاہتے، رول آف لاء اور جمہوریت ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں، آج کل سیاسی پارہ بہت اوپر ہے،گزشتہ روز یہ درخواست کی تھی کہ سیاسی جماعتیں یقین دہانی کرائیں، آپس میں برداشت، تحمل اور امن وامان کی صورتحال ہونی چاہیے،ذاتی طورپرسمجھتا ہوں کہ ہمیں قانونی تنازع میں نہیں پڑنا چاہیے، ہم نے سماجی اور سیاسی ڈسپلن کی بحالی بھی کرنی ہے، سپریم کورٹ اچھی نیت کےساتھ کیس سن رہی ہے، فریقین نے فیصلہ کرنا ہے کہ حالات کو کس طرف لےکر جاتے ہیں،کل بھی کہا تھا کہ قانونی معاملہ خلا میں حل نہیں کیا جاسکتا، آئین زندہ دستاویز ہے، اس کی تشریح زمینی حالات پر ہی مبنی ہوسکتی ہے۔جسٹس جمال مندوخیل نے فاروق ایچ نائیک سے سوال کیا کہ آپ یہ پوائنٹ پارلیمنٹ کیوں نہیں لےجاتے؟ اس پر فاروق ایچ نائیک نےکہا کہ پارلیمنٹ میں معاملہ اٹھانےکا سوچ رہے ہیں،اٹارنی جنرل منصور عثمان نےکہا کہ یکم مارچ کے حکم میں 2 ججزنے فیصلہ دیا۔چیف جسٹس پاکستان عمرعطا بندیال نےکہا کہ یہ ایک الگ کیس ہے، یکم مارچ کے فیصلے پر میرا جواب ہےکہ قانون صدر کو اختیار دیتا ہے وہ تاریخ دیں، اگر آپ یکم مارچ کے فیصلے پر وضاحت چاہتے ہیں تو الگ سے درخواست دیں، سادہ سا سوال ہے کہ الیکشن کمیشن تاریخ آگے کرسکتا ہے یا نہیں، اگر الیکشن کمیشن کا اختیار ہوا تو بات ختم ہوجائےگی۔