• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بہتر ہوتا چیف جسٹس فل کورٹ میں فیصلہ ہونے دیتے، محمد زبیر

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آپس کی بات“ میں میزبان منیب فاروق سے گفتگو کرتے ہوئے سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا ہےکہ اس وقت حکومت کو قانون سازی میں فائدہ ہے اس لیے وہ کررہی ہے،وکیل عمران خان، بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ حکومت نے بڑی جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا ہے ، اگرچہ عدلیہ میں کچھ اصلاحات تو ہونا ضروری ہیں، پوری دنیا میں لوگ عدلیہ پر جو ساری قوانین ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں۔سینئر رہنما مسلم لیگ ن، محمد زبیر نے کہا کہ بہترین ہوتا کہ چیف جسٹس صاحب اس کو فل کورٹ میں لے جاتے اور فیصلہ ہونے دیتے۔ اب اگر آپ فل کورٹ میں بھی لے کر نہیں جاتے سینئر موسٹ ججز بھی لے کر نہیں جاتے تو حکومت اب پیچھے بیٹھ جائے اور ہونے دے جو ہورہا ہے۔ سینئر رہنما مسلم لیگ ن، محمد زبیر نے کہا کہ ہم سمجھتے ہیں کہ سپریم کورٹ نے جس طرح سے ایکٹ کیابہت عرصے سے ہورہا تھا میں پاناما کی طرف نہیں جاؤں گا۔پچھلے ایک سال میں جس طرح حمزہ شہباز کے کیس میں 63A کی تشریح کی اور وہاں سے مسائل شروع ہوئے پھر اس کی قلابازی کھا کے دوسری تشریح کردی ۔ پرویز الٰہی کا کیس آیا اور خاص طور پر یہ جو پنجاب الیکشن کے حوالے سے جواپیل آئی تو جو ہوا وہ مضحکہ خیز تھا۔آپ نے دو ججوں کو کیوں فارغ کردیا ان پر تو کسی کے تحفظا ت نہیں تھے پی ٹی آئی کے بھی تحفظات نہیں تھے۔ آپ نے پانچ رکنی بنچ کردیابہترین ہوتا کہ چیف جسٹس صاحب اس کو فل کورٹ میں لے جاتے اور فیصلہ ہونے دیتے۔ اب اگر آپ فل کورٹ میں بھی لے کر نہیں جاتے سینئر موسٹ ججز بھی لے کر نہیں جاتے تو حکومت اب پیچھے بیٹھ جائے اور ہونے دے جو ہورہا ہے ۔پہلے وزیراعظم نواز شریف کو ایک کیس میں نکال دیانا اہل کردیا وہی اعجاز الاحسن ہیں پانچ نمبر بنچ کا حصہ تھے ان ہی کو مانیٹرنگ جج بنایا۔ کبھی دنیا کی تاریخ میں ہوسکتا ہے کہ سیشن کورٹ کے جج کے اوپر آپ سپریم کورٹ کے اس جج کو بٹھا دیں جوپہلے ہی نواز شریف کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں تو اس میں ہم کیسے مان سکتے ہیں کہ یہ انصاف ہورہا ہے۔آج بھی کوئی بات غلط ہوتی ہے تو میں اس کو غلط ہی کہتا ہوں ۔ ابھی رانا ثناء اللہ کابیان تھا تو میں نے اس سے اتفاق نہیں کیا۔ وکیل عمران خان، بیرسٹر گوہر خان نے کہا کہ حکومت نے بڑی جلد بازی میں یہ قدم اٹھایا ہے ، اگرچہ عدلیہ میں کچھ اصلاحات تو ہونا ضروری ہیں پوری دنیا میں لوگ عدلیہ پر جو ساری قوانین ہیں اس پر نظر رکھتے ہیں۔سوموٹو تو بڑے ہی کم کیسز میں لئے جاسکتے ہیں اور سپریم کورٹ کو کیا ضرورت پڑتی ہے کہ وہ سوموٹو لے لے۔ بعض ایسے مواقع ہوتے ہیں ایسے حالات آجاتے ہیں جس میں سوموٹو لینا بڑا ضروری ہوجاتا ہے۔ اس کا تعین آپ ضرور کرلیں کہ کس قسم کے حالات میں سپریم کورٹ سوموٹو لے لے ۔سربراہ پلڈاٹ احمد بلال محبوب نے کہا کہ وکلاء تنظیمیں کئی برسوں سے بھی چیف جسٹس کے صوابدیدی اختیارات سے متعلق توجہ دلارہی ہیں، سپریم کورٹ کے ججوں کی طرف سے بھی کہا جاتا رہا ہے کہ آرٹیکل 184/3میں سپریم کورٹ کے الفاظ ہیں چیف جسٹس نہیں لکھا گیا۔
اہم خبریں سے مزید