• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز یا ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط، خواجہ آصف

کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“میں گفتگوکرتے ہوئے وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہے کہ نواز شریف یا جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط ہے،ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ آرٹیکل 184/3آئینی شق ہے ، آئین کی تمام ایسی شقوں کی ریمیڈی آئین میں ہی فراہم کی گئی ہے،ماہر قانون صلاح الدین احمد نے کہا کہ 184/3کے تحت اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ نواز شریف یا جہانگیر ترین کو ریلیف دینے کیلئے قانون سازی کی بات غلط ہے، نواز شریف اور جہانگیر ترین کو قانونی عمل سے محروم کیا گیا،ہم ان کو ریلیف نہیں دے رہے معاملہ سپریم کورٹ پر چھوڑ رہے ہیں، صرف نواز شریف اور جہانگیر ترین ہی نہیں اور بھی بہت سے لوگوں کو ریلیف ملے گا، نواز شریف اور جہانگیر ترین کا فیصلہ بحال رکھنے یا ختم کرنے کا اختیار ابھی بھی سپریم کورٹ کے پاس ہے، ہم اختیار پارلیمنٹ کے پاس نہیں لے کر آرہے اختیار عدالت کے پاس ہے،عدلیہ کا اختیار لینے کی کوشش کبھی کی ہے نہ کریں گے۔ خواجہ آصف کا کہنا تھا کہ تیس دن کے اندر اپیل کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نواز شریف اور جہانگیر ترین کا ہوگا، موجودہ چیف جسٹس نے تاحیات نااہلی کو خود ڈریکونین قانون قرار دیا تھا،چیف جسٹس سے درخواست کریں گے ان اپیلوں کو سننے کیلئے بنچ بنادیں، اپیلوں پر عدالت کا جو فیصلہ ہوگا اس کو من و عن تسلیم کریں گے، قانون میں کوئی ایسی بات نہیں کہ طاقت مقننہ نے اپنے ہاتھ میں لے لی ہے، عدلیہ کے تمام تر اختیارات ابھی بھی انہی کے پاس ہیں، عدلیہ کی ٹیرٹری ٹریس پاس کرنے کی نہ کوشش کی ہے نہ کریں گے۔ خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ کے فیصلے بھی مقدمات میں قانون کی حیثیت سے پیش ہوتے ہیں، ہم جامع بات چیت کیلئے بالکل تیار ہیں،عمران خان کا ریکارڈ دیکھتے ہوئے ان کی انڈرٹیکنگ کی ہمارے لیے کوئی اہمیت نہیں ہے،عمران خان اپنی کسی بات پر چوبیس گھنٹے سے زیادہ کھڑے نہیں رہتے، کیا ہم اپنا سارا سیاسی سرمایہ عمران خان جیسے بے اعتبار شخص کی انڈرٹیکنگ پر لگادیں۔ خواجہ آصف نے کہا کہ الیکشن کیلئے معاونت سے متعلق وزارت دفاع کے اداروں نے جوا یڈوائس کیا وہ لکھ کر الیکشن کمیشن کو بھیج دیا تھا، عدالتی فیصلہ 4-3کا ہے یا 2-3کا ہے پہلے یہ کنفیوژن ختم ہونا چاہئے، سونے پر سہاگہ ہے کہ ایک جج جس نے بنچ سے خود کو الگ کرلیا تھا وہ دوبارہ بنچ میں آگئے ، حکومت الیکشن ازخود نوٹس میں 4-3کے فیصلے کے موقف پر قائم رہے گی، عدالتی فیصلے پر صدر مملکت کی الیکشن کی تاریخ دینے کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ماہر قانون جسٹس (ر) رشید اے رضوی نے کہا کہ آرٹیکل 184 /3آئینی شق ہے ، آئین کی تمام ایسی شقوں کی ریمیڈی آئین میں ہی فراہم کی گئی ہے، یہ پہلی دفعہ ہے کہ آئینی ریمیڈی کی جگہ قانون سازی کے ذریعہ ترمیم لائی گئی ہے، آرٹیکل 191پروسیجر اور پریکٹس کی بات کرتا ہے نیا حکومتی قانون بھی یہی بات کررہا ہے، یہ سوال ابھر رہا ہے کہ کہیں اوور لیپنگ تو نہیں ہے۔ماہر قانون صلاح الدین احمد نے کہا کہ 184/3کے تحت اپیل کا حق دینے کیلئے آئینی ترمیم کی ضرورت نہیں ہے، ایسی دو مثالیں ہیں جہاں کسی آئینی اختیار کے خلاف اپیل کا حق قانون سازی کے ذریعہ دیا گیا ہے، آرٹیکل 191ء میں ہائیکورٹس کے پاس رِٹ پاس کرنے کی پاور ہے، سنگل جج جب رٹ پاس کرتا ہے تو وہ اسی کورٹ کی ڈویژن بنچ کے پاس جاتا ہے۔
اہم خبریں سے مزید