اسلام آباد (ایجنسیاں)وفاقی کابینہ نے سپریم کورٹ کے پنجاب میں 14مئی کوالیکشن سے متعلق فیصلے کو پارلیمنٹ کی قرارداد سے متصادم قرار دیتے ہوئے اسے مسترد کر دیا اور قرار دیا کہ 3 رکنی بینچ کے اقلیتی فیصلے کو زبردستی اکثریت پر نہیں تھوپا جا سکتا‘ سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل نہیں ہے۔وزیراعظم محمد شہباز شریف نے کہاہے کہ 4 اپریل کو ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پرایک بارپھر عدل اورانصاف کاقتل ہواہے۔سابق وزیراعظم اورن لیگ کے قائد نواز شریف کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال سمیت تین ججز کیخلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں ریفرنس دائر کرنا چاہیے‘یہ فیصلہ ہی ان ججز کے خلاف چارج شیٹ ہےجبکہ چیئرمین تحریک انصاف عمران خان نے عدالت عظمیٰ کے فیصلے کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ سپریم کورٹ نے آئین کی حفاظت کی ہے۔ تحریک انصاف سپریم کورٹ کے فیصلے کے پیچھے کھڑی ہے، پوری قوم الیکشن کی تیاری کرے‘مسلم لیگ (ن) کی سینئر نائب صدر وچیف آرگنائزر مریم نواز نے کہاہے کہ وفاقی کابینہ کی جانب سے فیصلہ مسترد کر دینا کافی نہیں‘ آئین اور قانون کی دھجیاں اڑا کر لاڈلے کو مسلط کرنے کی کوشش کرنے والوں کو کٹہرے میں کھڑا کرنا چاہیے‘وقت آ گیا ہے پارلیمنٹ اس سہولت کاری کو اپنے آئینی اور قانونی ہاتھوں سے روک دے۔تفصیلات کے مطابق شہباز شریف کی زیر صدارت وفاقی کابینہ کے اجلاس میں الیکشن سے متعلق سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ کے فیصلے کا جائزہ لیا گیا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ سپریم کورٹ کا فیصلہ اقلیتی فیصلہ ہے لہذا کابینہ اسے مسترد کرتی ہے، سپریم کورٹ کا فیصلہ قابل عمل نہیں ہے۔وفاقی حکومت سپریم کورٹ کے فیصلے پر ایوان میں آواز بلند کرے گی، اتحادی جماعتیں ایوان میں سپریم کورٹ کے فیصلے پر بات کریں گی۔ذرائع کے مطابق کابینہ نے سپریم کورٹ کے فیصلے کے متعلق مختلف آپشنز کے حوالے سے ٹاسک دیدیا، اجلاس میں اتفاق ہوا کہ کوئی فورم خالی نہیں چھوڑا جا سکتا، اقلیتی فیصلے کو زبردستی اکثریت پر نہیں تھوپا جا سکتا۔ ذرائع کے مطابق اجلاس میں اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ ملک کسی بھی آئینی اور سیاسی بحران کا متحمل نہیں ہو سکتا ، تمام اتحادیوں نے وزیر اعظم کو مکمل اعتماد کا یقین دلایا۔ علاوہ ازیں لندن میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے نواز شریف کا کہنا تھاکہ ہم جیسے وزیراعظم کودھکادیا جاتا ہے اورڈکیٹیٹرکوگلے لگایا جاتا ہے‘مجھے گاڈ فادر اورسیسلین مافیا کہا گیا‘دوہرے معیار سمجھ نہیں آرہے، پاکستان کے اندرحکومتیں اب کس طرح چلاکریں گی؟ جیسا پاکستان میں ہورہا ہے کیا جنوبی ایشیا یا دنیا کے دیگرممالک میں ایسا ہوتا ہے؟۔ہم 70 سال سے یہی تماشابارباردیکھ رہے ہیں، 1953 سے نظریہ ضرورت کے تحت فیصلے آ رہے ہیں‘منتخب حکومت کو نکال دیا جاتا ہے۔ان کا کہنا تھاکہ کیا نظریہ ضرورت صرف ڈکٹیٹرز کےلیے ہوتا ہے؟ باربارمنتخب وزرائے اعظم کوچلتا کیا جاتا ہے، 3 ججز کا بینچ 4 ججز کے فیصلے کو نہیں مان رہا، یہ فیصلہ نہیں ون مین شو ہے، اس کیس کا فیصلہ 4 ججز کا پہلے ہی آ چکا ہے۔