• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

فیصلہ 3-4 سے مسترد، بینچ کا حصہ تھا، ازخود نوٹس سے عدالت غیر ضروری سیاسی تنازع سے دوچار، سپریم کورٹ نے ماضی سے سبق نہیں سیکھا، جسٹس اطہر من اللّٰہ

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) پنجاب اور خیبرپختونخوا میں انتخابات سے متعلق ازخود نوٹس کیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس اطہرمن اللّٰہ کا تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ از خود نوٹس چار تین سے مسترد ہوا، میں اس بینچ کا حصہ تھا، ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے،عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی بھی دیکھنی چاہیے، تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھا، 27 فروری کو ججوں کے ’’ٹی روم‘‘ میں اتفاق رائے ہواتھا میں بینچ میں بیٹھوں گا، سپریم کورٹ نے تاریخ ماضی سے سبق نہیں سیکھا، سپریم کورٹ سیاسی اسٹیک ہولڈر کو عدالتی فورم فراہم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کررہی ہے، تحریک انصاف کے استعفوں سے سیاسی بحران میں اضافہ ہوا، صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا کیا جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے، ملک سیاسی و آئینی بحران کے دہانے پر ہے، عدالت عظمیٰ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک طرف رکھ کر آئینی ذمہ داریاں پوری کرنی چاہئیں، ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جاسکتا،ججز غیرجانبداری اور شفافیت سے عزت کماتے ہیں، کسی سیاسی فریق کو عدالتی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت پر شک نہیں ہونا چاہیے، سیاستدان تومناسب فورم کی بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہاریا جیت جاتے ہیں، لیکن عدالت دونوں صورتوںمیں ہار جاتی ہے، سیاسی تنازع سے بچنے کیلئے فل کورٹ کی تجویز دی جس سے عوامی اعتماد قائم رہتا۔ جمعہ کے روز جسٹس اطہرمن اللہ کا 25 صفحات پر مشتمل تفصیلی نوٹ جاری کردیا گیا ہے۔ جسٹس اطہرمن اللہ نے تفصیلی نوٹ جاری کرتے ہوئے قرار دیا ہے کہ از خود نوٹس کیس اور پی ٹی آئی کی قیادت کی جانب سے دائر کی گئی آئینی درخواستیں چار، تین کی اکثریت کے تناسب سے درج ذیل وجوہات کی بناء پر مسترد کی جاتی ہیں، (اول )اس بنچ پر فل کورٹ کی جانب سے آئین کے آرٹیکل 184(3) کے استعمال سے متعلق طے شدہ بنیادی اصولوں کی پابندی لازم تھی، (دوئم) عدالت کو اپنی غیر جانبداری کیلئے سیاسی جماعتوں کے مفادات کے معاملات پر احتیاط برتنی چاہیے، (سوئم) عدالت کو سیاسی درخواست گزار کا طرز عمل اور نیک نیتی کا بھی جائزہ لینا چاہیے، جبکہ اس ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے۔تفصیلی نوٹس جس میں فاضل جج نے قرار دیاہے کہ سیاستدان تومناسب فورم کی بجائے عدالت میں تنازعات لانے سے ہاریا جیت جاتے ہیں، لیکن عدالت دونوں صورتوںمیں ہار جاتی ہے، سپریم کورٹ سمیت تمام اداروں کو اپنی انا ایک جانب رکھ کر اپنی آئینی ذمہ داریوں کو پورا کرنا چاہیے،لیکن سپریم کورٹ نے ماضی سے کوئی سبق نہیں سیکھا ہے۔ فاضل جج نے قرار دیاہے کہ ملک ایک سیاسی اور آئینی بحران کے دہانے پرکھڑا ہے،اب وقت آگیا ہے کہ تمام ذمہ دار ایک قدم پیچھے ہٹیں اور کچھ خود شناسی کا سہارا لیں، فاضل جج نے قرار دیاہے کہ درخواست گزاروں کا رویہ اس بات کا متقاضی نہیںہے کہ انکی درخواستوں کیلئے آرٹیکل 184/3کا اختیار سماعت استعمال کیا جائے۔فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس نوعیت کی درخواستوں پر ازخود نوٹس لینے کا مطلب غیر جمہوری اقدار اور حکمت عملی کو فروغ دینے کے مترادف ہے ، فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اگرچہ ماضی کے فیصلوں کو مٹایا نہیں جاسکتا ہے ؟لیکن کم ازکم عوامی اعتماد بحال کرنے کی کوشش کی جاسکتی ہے، انتخابات کی تاریخ کامعاملہ ایک تنازع سے پیدا ہوا ہے جو بنیادی طور پر سیاسی نوعیت کا تھا۔ فاضل جج نے قرار دیاہے کہ جسٹس یحییٰ آفریدی نے درست کہا ہے کہ عدالت کو ازخودنوٹس کے استعمال میں احتیاط برتنی چاہیے، سپریم کورٹ کو یکے بعد دیگرے تیسری بار سیاسی نوعیت کے تنازعات میں گھسیٹا گیا ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ میں جسٹس سید منصور علی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی رائے سے متفق ہوں ، سپریم کورٹ مسلسل سیاسی تنازعات کے حل کا مرکز بنی ہوئی ہے، 27 فروری کو ججوں کے ’’ٹی روم‘‘ میں اتفاق رائے ہواتھا کہ میں بینچ میں بیٹھوں گا، 23 فروری کی سماعت کے حکم میں جسٹس یحییٰ آفریدی کا الگ نوٹ بھی تھا، جسٹس یحییٰ آفریدی نے ناقابل سماعت ہونے کی بنیاد پر ازخود نوٹس اور درخواستیں مسترد کر دی تھیں،فاضل جج نے کہا ہے کہ میں بینچ سے الگ ہوا نہ ہی اپنے مختصرنوٹ میں ایسی کوئی وجوہات دی تھیں، میں نے بھی اپنے مختصر نوٹ میں درخواستوں کے ناقابل سماعت ہونے کے بارے میں بلا ہچکچاہٹ رائے دی تھی، میںجسٹس سید منصورعلی شاہ اور جسٹس جمال خان مندوخیل کی تفصیلی وجوہات سے مکمل اتفاق کرتا ہوں،عدالت کو سیاسی تنازعات سے بچانے کیلئے اپنے نوٹ میں فل کورٹ کی تشکیل کی تجویز بھی دی تھی۔ انہوںنے قرار دیاہے کہ فل کورٹ کی تشکیل سے عوامی اعتماد قائم رہتا، ازخود نوٹس کی کارروائی نے عدالت کو غیر ضروری سیاسی تنازعات سے دوچار کر دیا ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس مقدمہ میں سیاسی فریقین کا کردار بھی دیکھنا چاہیے تھا، درخواست گزار ،سیاسی جماعت(پی ٹی آئی) نے اسمبلیوں میں اپوزیشن کا آئینی کردار ادا کرنے کی بجائے سیاسی حکمت عملی کے طور پر استعفے دے دیئے تھے، جب استعفے منظور ہوئے تو اس منظوری کیخلاف پھر عدالتوں میں آگئے۔ فاضل جج نے سوال اٹھایا ہے کہ سیاسی حکمت عملی کے طور پر صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا کیا جمہوریت سے مطابقت رکھتا ہے؟ کیا سیاسی حکمت عملی کے طور صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنا بذات خود آئین کی خلاف ورزی کے مترادف نہیں ہے؟فاضل جج نے سوال اٹھایا ہے کہ کیا سپریم کورٹ کو خود کو سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال کرنیکی اجازت دینی چاہیے؟ کیا سپریم کورٹ کو غیر جمہوری طرز عمل کو فروغ دینے والا ادارہ بننا چاہیے؟فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس ازخود نوٹس سے پہلے سے ہی سیاسی ماحول مزید تلخ ہوگیا ہے جس سے عدالت پر اعتراضات اٹھے ہیں، اسی باعث عدالت کی غیرجانبداری پر سوالات اٹھے اور تحریری اعتراضات داخل ہوئے ہیں، سپریم کورٹ کو خود کو کسی کی سیاسی حکمت عملیوں کو آگے بڑھانے کے لیے پیش نہیں کرنا چاہیے،فاضل جج نے قراردیاہے کہ سپریم کورٹ غیرارادی طور پرسیاسی فریقین کو تنازعات کے حل کے لیے عدالتی فورم فراہم کرکے پارلیمنٹ کو کمزور کر رہی ہے، پی ٹی آئی نے پنجاب اور خیبرپختونخوا ء کی اسمبلیاںتحلیل کرنے کا فیصلہ کیا، دونوں صوبوں میں انتخابات منعقدکروانے کے حوالے سے متعلقہ ہائی کورٹوں سے رجوع کیا گیا، دونوںہائی کورٹوں میں معاملہ زیرالتوا ہونے کے باوجود یہ ازخود نوٹس لیا گیاہے،اس ازخود نوٹس سے ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کرنے والے سائلین کے حقوق متاثر ہوئے ہیں،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ پی ٹی آئی کی درخواستوں پر جس انداز سے کارروائی کی گئی ہے اس سے عدالت سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی ہے اورایک دوسرے کے مخالف سیاسی فریقین کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کا بھی موقع فراہم کیا گیا ہے،فاضل جج نے قرار دیاہے کہ اس حوالے سے فل کورٹ تشکیل دینے سے متنازع صورتحال سے بچا جاسکتا تھا، ہر جج نے آئین کے تحفظ کا حلف اٹھا رکھا ہے، میں نے بھی فل کورٹ بنانیکی تجویز دی تھی،فاضل جج نے قرار دیا ہے کہ پی ٹی آئی کے سربراہ ، عمران خان نے تحریک عدم اعتماد کے بعد اپوزیشن میں بیٹھنے کی بجائے استعفے دیے دے،ان کے قومی اسمبلی کے استعفوں کے باعث سیاسی بحران میں اضافہ ہوا،آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے دور رس نتائج مرتب ہوئے ہیں،فاضل جج نے قراردیاہے کہ سیاست دانوں کواپنے سیاسی معاملات سیاسی بات چیت سے حل کرنا چاہئے ،، ستم ظریفی یہ ہے کہ سیاسی تنازعات میں عدالت کو شامل کیا جاتا ہے حالانکہ اس کاتصوربھی نہیں کرناچاہیے، آئین کے آرٹیکل 63 اے کی تشریح کے سیاسی ماحول پر اثرات مرتب ہوئے ہیں ،جوتقسیم شدہ سیاسی فریقین کے لیے بہت دور رس تھے،فاضل جج نے تفصیلی نوٹ میں لکھا ہے کہ دو ہائی کورٹوں میںزیر التواء ہونے کے باوجود سپریم کورٹ نے اس کیس کے حوالے سے ازخود نوٹس لیا ہے، ہائی کورٹ کی صلاحیت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں بنتی ہے، ہر جج نے آئین کے تحفظ اور اسے محفوظ بنانے کا حلف اٹھا رکھا ہے، آرٹیکل کے آرٹیکل 184/3میں اپیل کا حق نہیں ہوتا اس لیے مناسب ہوتا کہ ہائیکورٹ کو معاملہ سننے دیا جائے، جج اپنے فیصلوں میں غیر جانبداری اور شفافیت سے ہی عزت ووقار کماتے ہیں، سیاسی نوعیت کے مقدمات میں عدالت کے انتظامی اورعدالتی اقدامات شفافیت پر مبنی ہونے چاہئیں،کسی سیاسی فریق کو عدالتی عمل کی غیرجانبداری اور شفافیت پر شک نہیں ہونا چاہیے۔ تفصیلی نوٹ میں قراردیاگیا ہے کہ عدالت کو سیاسی جماعتوں سے متعلق مقدمات میں ازخود نوٹس اختیار کے استعمال کرنے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، پی ٹی آئی کی درخواست پر جس انداز سے کارروائی شروع کی گئی اس سے سپریم کورٹ سیاسی تنازعات کا شکار ہوئی، ازخود نوٹس لیکر سیاست دانوں کو عدالت پر اعتراض اٹھانے کی خود دعوت دی گئی ہے، تحریک انصاف کی درخواست پر کارروائی شروع کرنا قبل ازوقت تھا، عدالتی کارروائی کے دوران بھی اعتراضات داخل کرائے گئے ہیں، عدالت سے رجوع کرنے والی سیاسی جماعت کی نیک نیتی بھی مدنظر رکھنا ضروری ہے۔

اہم خبریں سے مزید