رمضان المبارک کا بابرکت مہینہ شروع ہو چکا ہے۔ عبادات کے ساتھ ساتھ زکوٰۃ، خیرات اور فلاحی کام بھی بھرپور طریقے سے ہو رہے ہیں۔ بچت بازار اور رعایتی نرخوں پر راشن تقسیم کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ پہلا عشرہ عموماً ایسے ہی گزرتا ہے، دوسرے عشرے سے افطار پارٹی اور سحری کی دعوتیں شروع ہوتی ہیں، جو چاند رات تک جاری رہتی ہیں۔ عید بازار اور عید کی شاپنگ وغیرہ بھی لوگ چاند رات کے نزدیک ہی کرنا پسند کرتے ہیں۔
رمضان میں جہاں اوقات کار کم ہو جاتے ہیں، وہیں روزانہ کے معمولات میں بھی فرق آجاتا ہے۔ فن کاروں کے معمولات ذرا مختلف ہوتے ہیں۔ اُن کے اوقاتِ کار بھی ہٹ کے ہوتے ہیں۔ عام طور پر لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ رنگوں اور روشنیوں سے بھرپور شوبزنس میں صرف اسٹائل اور شہرت ہی ہے۔ انہیں اس بات کا ادراک نہیں ہوتا کہ یہ بھی ایک کام ہے۔
ایک جاب ہے، مزدور کی طرح فن کار کو صبح سے رات تک سیٹ پر اداکاری کی ڈیوٹی دینی ہوتی ہے، جس طرح دُنیا میں اور بھی دیگر پیشے ہیں، اداکاری بھی ایک پروفیشن ہے، ماضی میں جب معاوضہ اتنا قلیل ہوتا تھا کہ پیٹرول بھی نہ ڈلوایا جاسکے۔ اس زمانے میں فن کار نوکری بھی کرتے تھے اور اداکاری بھی، اب صورت حال مختلف ہے، آج کا فن کار خوش حال ہے اور اتنا کما لیتا ہے کہ اداکاری کو فل ٹائم جاب سمجھتا ہے۔
یہ اچھی بات ہے، فن کار خُوب پیسا کما رہے ہیں اور نام بھی بنا رہے ہیں۔ رمضان میں ریکارڈنگز کا احوال یہ ہوتا ہے کہ افطار کے بعد ریکارڈنگ شروع ہوتی ہے، جو سحری تک جاری رہتی ہے۔ ہم نے تو رمضان المبارک میں روزوں میں ریکارڈنگ کروائی ہے۔ سارا دن سیٹ پر مصروف رہتے تھے، افطار کے وقت بریک ہوتا تھا، خیر اب پرائیویٹ پروڈکشن کا دور ہے، پہلے صرف پی ٹی وی ہوا کرتا تھا۔ ہمارے لیے پی ٹی وی کے سنہرے دور کی سنہری یادیں کسی قیمتی خزانے سے کم نہیں۔
خیر صاحبو! ذکر ہو رہا تھا رمضان کا تو اس مرتبہ 23؍مارچ بھی رمضان میں آیا اور سول اعزازات کی تقسیم کی تقاریب بھی رمضان میں ہی منعقد ہوئیں۔ اس مرتبہ بہروز سبزواری، محمد قوی خان اور امجد اسلام امجد کا نام بھی فہرست میں شامل تھا۔ محمد قوی خان اور امجد اسلام امجد حال ہی میں دُنیا سے رخصت ہوئے ہیں، وفات کے بعد اعزاز ملنے پر اداکار اور ہدایت کار یاسر حسین نے دل چسپ تبصرہ کیا۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر لکھا کہ اس اعزاز کے بعد انہیں منیر نیازی کا کلام ’’ہمیشہ دیر کر دیتا ہُوں میں‘‘،یاد آرہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ زندگی میں ہی اعترافِ فن ہو جائے، تو کیا بات ہے۔
یاسرحسین کی بات سے ہم متفق ہیں۔ فن کاروں کو ان کی زندگی میں ہی ایوارڈ ملے، تو بہتر ہے۔ مرنے کے بعد ایوارڈ ملنے کا کیا فائدہ۔
کسی زمانے میں ایک گلوکار کو ایک سیاسی جماعت کی حمایت پر صدارتی ایوارڈ برائے حسن کارکردگی سے نوازا گیا۔ اس وقت تک انہوں نے ٹیلی ویژن پر صرف ایک آدھ نغمہ ہی گایا جاتا۔ اعزاز ملنے کے بعد موصوف اتنے پریشان ہوئے کہ کیا بتائیں۔ انہوں نے شکوہ کیا کہ اگر ہم سے کسی نے پوچھ لیا کہ آ پ نے کیا گایا ہے؟ کتنے گیت آن ایئر ہوئے، تو ہمارے پاس کوئی جواب نہ ہوگا۔
اعزازات اور ایوارڈ میرٹ پہ ہی ملتے ہیں۔ مگر اکثر لوگ اسے سفارش یا تعلقات سے جوڑتے ہیں۔ حقیقت کیا ہے، اس کا فیصلہ تو عوام ہی کرتے ہیں، کیوں کہ عوامی مقبولیت ہی دراصل صحیح پیمانہ ہے، کسی کو جانچنے کا عام آدمی کے لیے کون خاص ہے، یہ صرف عام آدمی ہی بتائے گا۔
عوام الناس کی خدمت کرنے والے ان کی دل جوئی کرنے والے، ان کے مسائل حل کرنے والے، ان کا درد سمجھنے والے، یقینا اعزاز کے مستحق ہیں۔ ایسے نام اگر ایوارڈ کی فہرست میں ہوں، تو کسی کو بھی تنقید کا موقع نہ ملے، مگر جب سیاسی شخصیات جن تک عام آدمی کی رسائی نہ ہو، انہیں خدمات عامہ پر ایوارڈ ملے، تو سوال ضرور اٹھے گا۔ بہرحال یہ تو طے ہے کہ سول ایوارڈز کی توقیر ہے اور ہرکوئی دل میں اسے پانے کی شدید خواہش رکھتا ہے۔ ملے نہ ملے، یہ نصیب کی بات ہے۔
قوی خان بہت بڑے فن کار تھے۔ انہیں پرائیڈ آف پرفارمینس ستارئہ امتیاز اور نشان ِ امتیاز سے نوازا گیا۔ ان کا فنی کیرئیر کئی دہائیوں پر محیط تھا۔ ریڈیو، ٹیلی ویژن، فلم اور تھیڑ پر انہوں نے فن ِ اداکاری کے جوہر دکھائے۔
ہم نے ان کے ساتھ ایک ڈراما سیریل’’خواب عذاب‘‘ میں کام کیا تھا۔ مذکورہ ڈراما لاہور میں ریکارڈ ہوا تھا۔ کاسٹ میں قوی صاحب اور ہمارے علاوہ ریحانہ صدیقی، سعدیہ امام، سلیم شیخ، سہیل احمد (عزیزی) اور فیصل رحمان شامل تھے۔ قوی خان ہمارے والد، ریحانہ صدیقی والدہ اور فیصل رحمن ہمارے بھائی کے کردار میں جلوہ گر ہوئے تھے۔ یہ ڈراما یونس جاوید نے لکھا تھا۔ یونس جاوید وہی ہیں، جنہوں نے ’’اندھیرا اجالا‘‘ جیسا بے مثال ڈراما لکھا۔
اندھیرا اُجالا جیسا ڈراما اب شاید پھرکبھی نہ بن سکے۔ پولیس افسر کے کردار میں محمد قوی خان، عرفان کھوسٹ اور جمیل فخری، ڈرامے کے مستقل کردار تھے۔ قوی صاحب نے بہت سے ڈراموں میں کام کیا، جن میں کہانی، میری شہزادی، سرے گھاٹ کی فرزانہ وغیرہ شامل ہیں، مگر جیسی مقبولیت انہیں اندھیرا اُجالا سے ملی۔ اس کی مثال نہیں ملتی، مثال تو امجد اسلام امجد کی بھی نہیں۔ اتنے بڑے شاعر، اتنے عمدہ ڈراما نگار، ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔
وارث، دہلیز، سمندر ان کے وہ ڈرامے ہیں، جو آج بھی لو گ شوق سے دیکھنا پسند کرتے ہیں۔ 70سے زائد کتابیں امجد صاحب نے لکھیں۔ ہر سال آرٹس کونسل کی اُردو کانفرنس میں ان سے ملاقات ہوتی تھی۔ امجد اسلام امجد چلے گئے، قوی صاحب اور ضیاء محی الدین بھی رخصت ہوئے۔ سُنا ہے کراچی کا ایک فلائی اوور ضیاء محی الدین کے نام سے موسوم ہوگیا ہے۔
90 برس سے اوپر عمر تھی ضیاء محی الدین، اتنے بڑے آدمی تھے، اگر پہلے ہی کوئی فلائی اوور ان کے نام ہو جاتا تو کیا تھا، مگر جس طرح عمر شریف کے مرنے کے بعد ایک انڈر پاس اور ایک پارک ان کے نام سے موسوم ہوا ، اسی طرح ضیاء محی الدین کے مرنے کے بعد ہی خیال آیا ان کی عظمت کا، زندگی کا سفر رواں دواں ہے، ہر ایک کو موت کا ذائقہ چکھنا ہے۔ بڑے لوگ چلے جاتے ہیں، تو ان کا نام رہ جاتا ہے، یادوں میں رہ جاتے ہیں، زیڈ اے بخاری، معین اختر، اداکار محمد علی، عمر شریف، کمال احمد رضوی، ضیاء محی الدین، محمد قوی خان، فاطمہ ثریا بجیا، حسینہ معین سمیت ایسے بہت سے نگینے ہیں جو خاک میں سوگئے ہیں۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لعیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے