کراچی (ٹی وی رپورٹ) وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ نے ایسے قانون پر حکم امتناع دیا جو ابھی بنا ہی نہیں ہے،وکلاء کی تمام تنظیمیں اور سپریم کورٹ کے ججز بھی بنچوں کی تشکیل پر اعتراضات اٹھارہے ہیں،پارلیمنٹ کے پاس دس دن ہیں دوبارہ مشترکہ اجلاس بلا کر بل میں ترمیم کرسکتی تھی، عمران خان بڑی بڑی شخصیات سے اپنا موازنہ کرتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے، قائداعظم کا جو مقام ہے پاکستان میں کسی دوسرے کا نہیں ہوسکتا۔ وہ جیو کے پروگرام ”کیپٹل ٹاک“ میں میزبان حامد میر سے گفتگو کررہے تھے۔ پروگرام میں تحریک انصاف کے وکیل گوہر خان، سیکرٹری لاہور ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن صباحت رضوی اور چیئرمین ایگزیکٹو کمیٹی پاکستان بار کونسل حسن رضا پاشا بھی شریک تھے۔گوہر خان نے کہا کہ سپریم کورٹ نے پہلی بار کسی بل پر عملدرآمد روکنے کا آرڈر نہیں دیا ہے، این آر او کیس میں بھی سپریم کورٹ نے ایسا ہی کیا تھا، حکومت کیلئے سب سے بڑی سزا یہی ہے کہ سپریم کورٹ ان سے الیکشن کروائے، حکومت توہین عدالت سے کچھ زیادہ ہی کررہی ہے۔حسن رضا پاشا نے کہا کہ جسٹس مظاہر نقوی کی صرف آڈیو کا معاملہ نہیں دیگر معاملات بھی ہیں ، پاکستان بار کونسل کی ہڑتال ناکام نہیں ہوئی، ہڑتال کا اعلان رات پونے گیارہ بجے کیا تھا، رمضان کی وجہ سے بہت سی جگہوں پر ہڑتال کی اطلاع نہیں پہنچ سکی، سندھ ، بلوچستان، راولپنڈی اور اسلام آباد میں مکمل ہڑتال ہوئی ، اوریا مقبول جان نے عمران خان کا قائداعظم سے موازنہ کر کے قائداعظم کی شان میں گستاخی کی ہے۔صباحت رضوی نے کہا کہ لاہور بار نے پاکستان بار کونسل کی ہڑتال کی کال کی حمایت نہیں کی، لاہور کی عدالتوں میں پرامن انداز میں کام ہوتا رہا، چیف جسٹس عمر عطا بندیال آئین کی بالادستی کے ساتھ کھڑے ہیں، ایمرجنسی لگتی ہے تو اس کے ذمہ دار الیکشن میں تاخیر کرنے والے ہوں گے، اوریا مقبول جان کے بیان کو سنجیدہ نہیں لینا چاہئے، عمران خان کو بھی قائداعظم سے اپنے موازنہ پر اعتراض ہی ہوگا۔ وزیرمملکت برائے پٹرولیم مصدق ملک نے کہا کہ چیف جسٹس کی پارلیمان کے ساتھ جنگ نہیں ہے یہ جنگ تو سپریم کورٹ کے اندر چھڑی ہوئی ہے، کسی سیاستدان نے یہ نہیں کہا تھا کہ ججوں کو ایسا نہیں دکھنا چاہئے کہ جبہ پہن کر سیاستدان کھڑے ہیں، چار جج جنہوں نے کہا تھا کہ اگر آپ اپنے دائرہ اختیار سے باہر جاکر کیس سنتے ہیں تو گویا اپنے حلف کی خلاف ورزی کررہے ہیں ان میں سے کوئی بھی پارلیمان کا رکن نہیں تھا،وکلاء کی تمام تنظیمیں اور سپریم کورٹ کے ججز بھی بنچوں کی تشکیل پر اعتراضات اٹھارہے ہیں۔مصدق ملک کا کہنا تھا کہ پارلیمنٹ کے پاس دس دن ہیں وہ دوبارہ مشترکہ اجلاس بلا کر بل میں ترمیم کرسکتی تھی، سپریم کورٹ نے ایسے قانون پر حکم امتناع دیا جو ابھی بنا ہی نہیں ہے۔ مصدق ملک نے کہا کہ ہم جسٹس منیر، جسٹس ثاقب نثار اور جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بھی کچھ نہیں بگاڑ سکے تھے مگر تاریخ تو لکھی گئی، ان ججوں کی گنتی میں کون کون آنا چاہتا ہے یہ انہی کا فیصلہ ہوگا، آج بھی اسی طرح کا فیصلہ آیا جیسے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر آیا تھا۔ مصدق ملک نے کہا کہ عمران خان بڑی بڑی شخصیات سے اپنا موازنہ کرتے ہیں یہ مناسب نہیں ہے۔