اسلام آباد، لاہور (نیوز ایجنسیاں) حکومتی اتحاد پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ چیف جسٹس نے سارے اختیارات پر قبضہ کرکے عدالتی مارشل لاء لگادیا، چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن اورحکومت کے اختیارات پر قبضہ کر لیا، پارلیمنٹ نے قانون بنایاتوعملدرآمدروکدیا، پارلیمنٹ قانون منظور کرتی ہے ابھی ایکٹ بنا بھی نہیں لیکن چیف جسٹس نے بینچ بنادیا، آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں پھر کیوں مداخلت کی جارہی ہے، ابھی سیاست اتنی نہیں گری کہ عمران خان سے مذاکرات کریں، جبکہ وزیراعظم شہباز شریف کا کہنا ہے کہ 2018 میں فراڈ الیکشن سے ترقی کا سفر ختم کیا گیا، عمران خان دور میں کرپشن کا آغاز ہوا،سابق چیف جسٹس ثاقب نثار ہمارے ترقیاتی منصوبے نہ روکتے تو پنجاب کے حالات ایسے نہ ہوتے، ،ثاقب نثار نے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر اپنے دل کی بھڑاس نکالی،پی ٹی آئی دورمیںتھانے بکتے ، ڈی پی اوز اور ڈی سی اوز کے دفتروں کی بولیاں لگتی تھیں، ہمارے دور میں اس طرح کا کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجربل بارز کا مطالبہ تھا جسے منظور کرنے پر فخر ہے، قانون سازی کاحق کسی اورکونہیں دینگے۔ تفصیلات کے مطابق مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ چیف جسٹس نے الیکشن کمیشن، پارلیمنٹ اور حکومت کے اختیارات پر قبضہ کرلیا ہے، الیکشن شیڈول بھی دے دیا، رجسٹرار سپریم کورٹ کی تعیناتی حکومت کا اختیار ہے لیکن چیف جسٹس نے ہٹ دھرمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے،اسے روک لیا، یہ جوڈیشل مارشل لاء نفاذ کردیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی ادارے کو دوسرے ادارے کے دائرہ اختیار میں مداخلت نہیں کرنی چاہیے۔ فضل الرحمٰن نے عمران خان سے کسی بھی مذاکرات کا امکان مسترد کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان سیاست کا غیر ضروری عنصر ہے، سیاست اتنی گرگئی ہے کہ ہم اس سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، ہم اس سے کبھی مذاکرات نہیں کرینگے۔ انکا کہنا تھا کہ 2018 میں اس وقت کے اسٹیبلشمنٹ دھاندلی کی پشت پناہی کررہی تھی، کیا ہم موجودہ اسٹیبلشمنٹ سے درخواست کرسکتے ہیں کہ وہ اسوقت کی اسٹیبلشمنٹ کے اس ناجائز، ظلم و دھاندلی کے جرم کا احتساب کرسکے گی۔ آصف زرداری کی اپوزیشن سے مذاکرات کی تجویز سے متعلق سوال کے جواب میں فضل الرحمن نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا سیاسی فلسفہ ہے،ہم نے پہلے بھی کہا تھا اسمبلیوں سے مستعفی ہوں اور نئے الیکشن کی طرف جائیں لیکن پی پی پی نے کہا عدم اعتماد لائیں ہم نے اتفاق کیا، ہماری بات مان لی جاتی تو آج الیکشن ہوچکے ہوتے اور ملک میں کوئی ہیجان نہ ہوتا، آج اسی کو ہم بھگت رہے ہیں، وہی مہنگائی آج ہمارے لیے مشکل کا باعث بن رہی ہے اور عمران خان اسے اپنی اڑان کیلئے استعمال کررہا ہے، اب ہم نئے تجربے نہیں کرسکتے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے دھرنے کو اٹھانے کیلئے جنرل باجوہ کے نمائندے جنرل فیض،پرویز الٰہی، شجاعت اور ہماری ٹیم کے ساتھ مذاکرات میں طے ہوا تھا اسمبلیاں توڑ کے الیکشن کرائینگے تاریخ بھی طے ہوئی تھی، لیکن دھرنا ختم ہونے کے بعد پھر وہ مکر گئے، کہا ایسی تو کوئی بات ہی نہیں ہوئی تھی، اتنی ذمہ دار پوسٹس پر بیٹھنے والے لوگ بھی ایسی کچی باتیں کرتے ہیں، نہ چوہدری صاحبان کو آج تک احساس ہے کہ ہم نے زبان دی تھی، ایک وعدہ نہیں جنرل باجوہ اور فیض حمید کی کس کس بات کو روئیں گے، اب انکے ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں خود سوچیں۔ فضل الرحمن نے مزید کہا کہ تمام جماعتوں کا اتفاق ہے الیکشن اکٹھے ہونگے، اس پورے قومی تصور کو عمران خان کیلئے قربان نہیں کرسکتے۔ادھر لاہور میں شاہدرہ فلائی اوور منصوبے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے وزیراعظم شہباز شریف نے کہاکہ کہیں (ن )لیگ نہ جیت جائے اس لیے جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے 2018 سے پہلے منصوبوں پر پابندیاں لگائیں، 2018 کے جھرلو الیکشن میں ن لیگ اور نواز شریف سے خدمت کا موقع چھینا گیا۔انہوںنے کہاکہ جسٹس ریٹائرڈ ثاقب نثار نے اورنج لائن ٹرین منصوبے پر اپنی بھڑاس نکالی، منصوبے کے خلاف پی ٹی آئی کی درخواست پر 11 ماہ تک کیس سنا اور کارورائی مکمل ہونے کے 8 ماہ بعد تک فیصلہ نہ دیا۔انہوں نے کہا کہ اگر اورنج لائن ٹرین کا کام 2018 سے پہلے مکمل ہو جاتا تو (ن )لیگ کو الیکشن میں فائدہ ہوتا، ثاقب نثار راستہ نہ روکتے تو الیکشن میں ن لیگ کے وارے نیارے ہوتے، سابق چیف جسٹس ثاقب نثار اپنے بھائی کو پی کے ایل آئی میں لگانا چاہتے تھے۔