• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

الیکشن کیس، مذاکرات کیلئے ٹائم لائن نہ ہدایت، مناسب حکم جاری کریں گے، سپریم کورٹ، اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے ویسا ہی چلے گا، چیف جسٹس


اسلام آباد( نیوز ایجنسیاں/نمائندہ جنگ) ملک بھر میں قومی و صوبائی اسمبلیوں کے ایک ہی دن الیکشن منعقد کرانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ توقع تھی کہ دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی، عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کرسکتی، مذاکرات تو پہلے ہی ہوجانے چاہئے تھے، عدالتی فیصلے، آئین اور قانون موجود ہے، ہم نہ کوئی ہدایت جای کر رہے ہیں اور نہ ہی کوئی ٹائم لائن جاری کر رہے ہیں، اس کیس کا تحریری فیصلہ اور مناسب حکمنامہ جاری کریں گے،عدالت مذاکرات کرنے پر مجبور نہیں کر سکتی، توقع تھی دونوں فریقین کی ملاقات ہوگی، مذاکرات تو پہلے ہی ہوجانا چاہئے تھے، صرف آئین پر عمل چاہتے ہیں، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں، حکومت نے نیک نیتی دکھانے کے لئے کیا اقدامات کئے ہیں، لگتا ہے حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، مذاکرات کے معاملے میں صبر و تحمل سے کام لینا ہوگا، قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے؟ ویسے ہی چلے گا؟ ۔ سپریم کورٹ نے کیس کی سماعت ملتوی کردی۔ جمعرات کو چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس منیب اختر بنچ پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ملک بھر میں ایک دن الیکشن کرانے کی درخواست کی سماعت کی۔نمائندہ جنگ کے مطابق چیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ ایک ہی دن عام انتخابات کے انعقاد کے معاملے پرعوام کے بنیادی حقوق اور آئین کا تحفظ کریں گے، یہ ہمارا حکم یا ہدایت نہیں بلکہ ایک تجویز ہے کہ آپس میں بیٹھ کر حل نکالیں، مذاکرات کے معاملے پر صبر و تحمل سے کام لینا چاہئے، قومی مفاد اور آئین کے تحفظ کیلئے اتفاق نہ ہوا تو جیسا ہے؟ ویسے ہی چلے گا؟ ہم مذاکرات کیلئے مجبور نہیں کررہے لیکن سب کو ایک متفقہ حل کی جانب لے کر جانا چاہتے ہیں، آئینی طریقے سے معاملے کا حل نکال لیں، اس سے زیادہ ہمارا کوئی مفاد نہیں، جو بحث عدالت میں کی جارہی ہے، سیاسی قیادت آپس میں بیٹھ کر کرے اور آگے بڑھے، اگر آپ نے حل نہیں نکالا تو سب کو معلوم ہے کہ آئین بھی موجود ہے اور عدالت کا فیصلہ بھی موجود ہے، عدالت نے کیس کی مزید سماعت ملتوی کرتے ہوئے آبزرویشن دی کہ مذاکرات کیلئے ٹائم فریم نہیں دے رہے، آج کی سماعت کا مناسب حکم جاری کریں گے، دوران سماعت اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور حزب اختلاف کو مذاکرات کی دعوت دیتے ہوئے پانچ پانچ نام طلب کرلئے ہیں، چیئرمین سینیٹ مذاکراتی کمیٹی کو سہولت فراہم کریں گے، جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اس معاملے میں نیک نیتی کو بھی دیکھنا ہوگا، حکومت نے معاملہ چیئرمین سینیٹ اور چیئرمین سینیٹ نے کمیٹی کے حوالے کردیا ہے، اگر مذاکرات میں سنجیدہ ہیں تو آج ہی نمائندے نامزد کرکے مذاکرات شروع کئے جائیں، فاضل چیف جسٹس نے کہا کہ لگتا ہے کہ حکومت صرف پاس پاس کھیل رہی ہے، ہمیں توقع ہے کہ مذاکرات کے عمل کو آگے بڑھایا جائے گا، دوران سماعت تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری نے کہا ہے کہ آئین سپریم ہے، اتفاق رائے پیدا کرنے کے لئے آئین کو بالائے طاق نہیں رکھا جاسکتا، پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر نے کہا کہ ہم کھلے ذہن کے ساتھ مذکرات کے لئے تیار ہیں اور فریق مخالف سے بھی یہی توقع ہے لیکن مذاکرات کا عمل لامحدود نہیں ہونا چاہئے، مذاکرات کے لئے ٹائم فریم کا تعین ضرروی ہے، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے کہا کہ حکومت مذاکرات کرنے میں سنجیدہ نہیں ہے اور اسے تاخیری حربہ کے طور پر استعمال کیا جارہا ہے، پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائک نے کہا کہ یہ سیاسی تقاریر کا وقت نہیں ہے، ملک کو ایک سنگین بحران سے نکالنے کے لئے پہلے مل بیٹھ کر سیاسی عمل کا آغاز کرنا چاہئے، دوران سماعت چیف جسٹس نے بیس اپریل کو وقفے کے بعد چار بجے کیس کی سماعت چیمبر میں کرنے کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ اس بارے میں بڑی افواہیں پھیلائی گئی ہیں، چار بجے ایک جج صاحب کی فلائٹ تھی اور وہ بنچ میں سماعت کے لئے دستیاب نہیں تھے، چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بنچ نے کیس کی سماعت کی تو اٹارنی جنرل نے عام انتخابات ایک دن کرانے کے بارے میں مذکراتی عمل میں پیشرفت سے متعلق تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ بیس اپریل کو حکومت اور اپوزیشن میں پہلا رابطہ ہوا،26 اپریل کو ملاقات پر اتفاق ہوا تھا جبکہ 25 اپریل کو ایاز صادق اور خواجہ سعد رفیق کی اسد قیصر سے ملاقات ہوئی، اسد قیصر نے بتایا کہ وہ مذاکرات کیلئے با اختیار نہیں ہیں، انہوں نے بتایا گزشتہ روز حکومتی اتحاد کی ملاقاتیں ہوئیں، دو جماعتوں کو مذاکرات پر اعتراض تھا لیکن راستہ نکالا گیا، چیئرمین سینیٹ سے رابطہ کیا گیا اور انہوں نے حکومت اور اپوزیشن کو خطوط لکھے ہیں، چیئرمین سینیٹ نے حکومت اور اپوزیشن سے پانچ پانچ نام مانگے ہیں، عدالت کے استفسار پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ مذکراتی عمل میں چیئرمین سینیٹ کا کردار محض سہولت کار کا ہے، چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ اسد قیصر کے بعد کیا کوشش کی گئی کہ کون مذاکرات کیلئے بااختیار ہے؟ جس پر اٹارنی جنرل نے بتایا کہ منگل کو میڈیا کی خبروں سے معلوم ہوا کہ شاہ محمود قریشی مذاکرات کیلئے بااختیار ہیں، چیئرمین سینیٹ کی سہولت کاری سے متعلق ایک سوال کے جواب میں اٹارنی جنرل نے بتایا کہ سینیٹ وفاق کی علامت ہے اس لئے چیئرمین سینیٹ کو کہا گیا ہے، پی پی پی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ سینیٹ وفاق کا ایوان ہے، سینیٹ کی وفاقی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے چیئرمین سینیٹ کو حکومت اور حزب اختلاف میں مذکرات کرانے کی درخواست کی گئی ہے، انہوں نے کہا کہ سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے، چیرمین سینٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں کو ہی کرنے ہیں، یہ سیاسی ایشو ہے اس لئے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے، پی ٹی آئی کے رہنما شاہ محمود قریشی نے موقف اپنایا کہ حکومت کے اصرار پر عدالت نے سیاسی اتفاق رائے کے لئے موقع دیا تھا، تمام جماعتوں کی سیاسی قیادت عدالت میں پیش ہوئی تھی، پی ڈی ایم میں آج بھی مذاکرات پر اتفاق رائے نہیں ہے، عدالتی حکم کو پی ٹی آئی نے سنجیدگی سے لیا ہے، سپریم کورٹ کا 14 مئی کو الیکشن کرانے کا فیصلہ حتمی ہے، انہوں نے کہا کہ عدالت نے قومی مفاد میں سیاسی جماعتوں کو موقع فراہم کیا ہے، تحریک انصاف کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں کیا گیا ہے، پی ٹی آئی نے مجھے، فواد چوہدری اور علی ظفر کو مذاکرات کیلئے نامزد کیا تھا، اسد قیصر نے حکومت کو مجھ سے رابطہ کرنے کا کہا تھا، آج تک مجھ سے کسی نے رابطہ نہیں کیا ہے، چیئرمین سینیٹ نے گزشتہ روز فون پر کہا کہ وزیراعظم کے اصرار پر رابطہ کر رہا ہوں، چیئرمین سینیٹ سے کہا ہے کہ سپریم کورٹ میں جو تجاویز دی تھیں وہ کہاں ہیں؟ سینیٹ کمیٹی صرف تاخیری حربہ ہے، انہوں نے کہا قومی اسمبلی کا اجلاس بلاکر رولز کی خلاف ورزی کی گئی، دھرنے کے دوران کہا تھا کہ پارلیمنٹ میرا سیاسی کعبہ ہے لیکن رول اکتیس کے تحت عدالت میں زیر سماعت معاملے کو پارلیمنٹ میں زیر بحث نہیں لایا جاسکتا ہے اور نہ ہی آئین کے آرٹیکل 68کے تحت ججوں کے کنڈکٹ پر پارلیمنٹ میں بحث ہوسکتی ہے، انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں دھمکی آمیز لہجے اور زبان سن کر شرمندگی ہوئی ہے، پارلیمنٹ میں کہا گیا کہ پارلیمنٹ کی توہین ہوئی ہے، حکومت سنجیدہ ہے تو ابھی مذاکرات کے لئے تیار ہیں۔

اہم خبریں سے مزید