کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیوکے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا ہے کہ منصفانہ و شفاف انتخابات کیلئے سب کو بیٹھ کر ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے،نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ سپریم کورٹ میں اختلافات ختم کرنے کیلئے ججوں کے درمیان گفتگو ہوئی ہے، سابق معتبر عدالتی شخصیات نے یہ معاملہ سیٹل ڈاؤن کرنے کی کوشش کی ہے،سینئر صحافی حسنات ملک نے کہا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال جمعرات کو سماعت میں بہت محتاط نظرآئے۔وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ اس وقت ملک میں کوئی آئینی تنازع نہیں بلکہ سیاسی تنازع ہے، عمران خان کہہ چکے ہیں کہ انہوں نے جنرل باجوہ کے کہنے پر اسمبلیاں توڑیں، عمران خان سمجھتے تھے دونوں صوبائی اسمبلیاں تحلیل کرنے سے پورا نظام گر جائے گا، حکومت بھی وقت پر الیکشن ہونے پر یقین رکھتی ہے، عمران خان نے اچھی سوچ سے نہیں انتشار پیدا کرنے کیلئے اسمبلیاں تحلیل کی تھیں، منتخب اسمبلیوں کو ایک شخص کی ضد کی بھینٹ نہیں چڑھایا جاسکتا ۔ احسن اقبال کا کہنا تھا کہ پنجاب پر الیکشن کیلئے 90دن کی پابندی لگائی گئی وہ خیبرپختونخوا پر بھی لگائی جاتی، سپریم کورٹ کا پنجاب میں 90دن میں انتخابات پر اصرار جبکہ خیبرپختونخوا میں اس کے بعد بھی انتخابات کی گنجائش کا مطلب ہے انتخابات اکتوبر میں بھی ہوسکتے ہیں، پی ٹی آئی کو قائل کرنے کی کوشش کریں گے کہ مقررہ مدت پر ایک ساتھ الیکشن ہونا ملک کے مفاد میں اور آئین کا تقاضا ہے۔ احسن اقبال نے کہا کہ ہم اس بات کے متحمل نہیں ہوسکتے کہ اگلا الیکشن بھی متنازع ہو، اگلے چار پانچ سال بھی ملک میں دھرنے اور احتجاج ہوتے رہیں، اگلے الیکشن کیلئے ایسے فریم ورک پر اتفاق رائے ضروری ہے جسے تمام سیاسی جماعتیں اور اسٹیک ہولڈرز تسلیم کریں، اس وقت بیک فٹ یا فرنٹ فٹ پر ہونے کا نہیں پاکستان کے مفاد کا سوال ہے، پنجاب میں پہلے الیکشن کرواکے باقی وفاقی یونٹس کو ماتحت کیا جائے گا تو اس کا فیڈریشن کو ناقابل تلافی نقصان ہوگا، اتحادی جماعتوں کی خواہش ہے کہ مقررہ مدت پر انتخابات ہونے چاہئیں، منصفانہ و شفاف انتخابات کیلئے سب کو بیٹھ کر ضابطہ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے۔ نمائندہ خصوصی جیو نیوز عبدالقیوم صدیقی نے کہا کہ ڈیفنس اتھارٹیز کی چیف جسٹس سے ملاقات کے بعد دائر ہونے والی شہری کی درخواست سپریم کورٹ کی ترجیح بن گئی، سپریم کورٹ میں الیکشن کمیشن کو 21ارب روپے کی فراہمی سے متعلق کیس کی سماعت نہیں ہوئی،جمعرات کو سماعت میں چیف جسٹس کے علاوہ باقی دو ججز جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس منیب اختر بالکل خاموش بیٹھے رہے، سپریم کورٹ کے طرزعمل سے لگتا ہے کہ وہ چاہتی ہے کہ یہ معاملات سیاسی فورمز پر طے ہوں۔عبدالقیوم صدیقی کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں اختلافات ختم کرنے کیلئے ججوں کے درمیان گفتگو ہوئی ہے، سابق معتبر عدالتی شخصیات نے یہ معاملہ سیٹل ڈاؤن کرنے کی کوشش کی ہے، اختلافات ختم کرنے کی کوششوں میں چیف جسٹس آف پاکستان کی طرف سے رکاوٹ آتی رہی، اطلاعات ہیں پارلیمان توہین پارلیمنٹ کا بل منظور کرنے جارہی ہے۔