اسلام آباد(جنگ نیوز/ایجنسیاں)پارلیمنٹ اورعدلیہ کے مابین کھلی لڑائی شروع ‘ایک دوسرے پر من پسندفیصلوں کے الزامات ‘ قومی اسمبلی میں سپریم کورٹ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا ‘وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا کہ عدلیہ اپنی تاریخ کا حساب دے اور ججز اپنی حدود میں رہیں ‘ پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی‘ وہ وقت گیا جب وزیراعظم کو بلی چڑھایا جاتا تھا‘ آئین شکنی پر انگوٹھے لگانے والوں کی باقیادت کو یہاں بلائیں ‘ اسپیکر ایوان کی کمیٹی بنائیں ‘ عدلیہ کے تمام فیصلوں کا ٹرائل کیاجائے ‘اگر وہ پارلیمنٹ سے پروسیڈنگ مانگتے ہیں تو پھر ہمیں بھی اپنی پروسیڈنگ دیں ‘ اسپیکر قومی اسمبلی سپریم کورٹ کو خط لکھ کر ججوں کے اجلاس کا ریکارڈ مانگیں‘کیا ہمیں سپریم کورٹ کے اجلاس کی کارروائی مل سکتی ہے کہ کس جج نے کیس سننے سے انکار کیا؟۔پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین نور عالم خان نے اعلان کیاکہ عدالت پارلیمنٹ کا ریکارڈ طلب کرسکتی ہے تو میں بھی رجسٹرارسپریم کورٹ کے وارنٹ گرفتاری جاری کروں گا‘ آزادررکن اسمبلی اسلم بھوتانی کا کہنا تھاکہ مجھے تکلیف ہوئی جب عدالت نے کارروائی مانگی‘وہ کون ہوتے ہیں ہمیں بلانے والے‘ ان کو کورا کورا جواب دے دیں کہ ہم کارروائی نہیں دیں گےجو کرنا ہے کرلو۔واضح رہے کہ گزشتہ دنوں اسپیکر قومی اسمبلی نے چیف جسٹس کو خط لکھ کر حالیہ فیصلوں اور ججوں کے ریمارکس پر تحفظات کا اظہارکیاتھا۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو یہاں قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے خواجہ آصف نے کہا کہ آج ایک ادارہ ہم سے اس ایوان کی کارروائی کی تفصیلات طلب کر رہا ہے، ایک نہیں سو دفعہ پروسیڈنگز طلب کریں، ہماری کوئی چیز پوشیدہ نہیں ہوتی،انہوں نے کہا کہ عدلیہ میں بیٹھے 15 آدمی آپس میں لڑ رہے ہیں‘وہ ہمیں مذاکرات کا کہہ رہے ہیں ‘پہلے وہ خود مذاکرات کریں‘ اس کے بعد ہمیں ہدایات جاری کریں‘ہمیں پارلیمنٹ کا دفاع کرنا پڑے گا، ایک سیاسی پارٹی کو پہلے 2018 میں سہولت کار ملے، انہیں اب پھر سہولت کار مل گئے ہیں‘ایوان میں بیٹھے ارکان اس سہولت کاری کے آگے دیوار بن جائیں ۔ وزراءاعظم کی گردنیں لینے کا رواج ختم ہونا چاہیے‘ ہمیں اپنے وزیراعظم کا تحفظ کرنا چاہیےچاہے وہ کسی بھی جماعت کا ہو‘ہمیں اپنے ادارے کے وقار کے لیے یہ سیاسی جنگ لڑنی پڑے گی۔سپریم کورٹ کوشش کررہی ہے کہ اسمبلی اپنی مدت پوری نہ کرے ۔یہ ایوان آئین کا محافظ ہے، جو آئین حکم دیتا ہے، وہ ہوگا‘ہم نے بہت حساب دیے ہیں، اب ہمیں بھی حساب دیا جائے، ان سے پوچھا جائے ان کی تنخواہ کتنی ہے، اس کے علاوہ تاحیات تمام مراعات بھی ملتی ہیں، ان کو پلاٹ بھی ملتے ہیں۔اسمبلی کی خصوصی کمیٹی بنائی جائےجو عدلیہ سے حساب لے۔ایسے نہیں ہوگا، اگر جنگ لڑنی ہے تو پھر جنگ ہوگی،پارلیمنٹ ہتھیار نہیں ڈالے گی،پاکستان کی عدلیہ نے نا قابل معافی گناہ کیے ہوئے ہیں، ان کے جرائم کی بخش نہیں ہوسکتی،آزاد رکن اسمبلی اسلم بھوتانی نے کہاکہ مجھے تکلیف ہوئی جب عدالت نے کارروائی مانگی،وہ کون ہوتے ہیں ہمیں بلانے والے‘ہمیں ہمت کرنا ہوگی اور اس جمہوریت کو بچانا ہے۔میں تجویز کرتا ہوں کہ ان کو کورا کورا جواب دے دیں کہ ہم کارروائی نہیں دیں گے۔اب زبردستی والا دور گیا۔ ہم ان ججز کی بات کر رہے ہیں جو پارٹی بنے ہوئے ہیں،اب الیکشن نومبر میں ہی ہوں گے۔آپ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ ہم آپ کی عزت کریں،اب توہین عدالت سے ڈرانے والے دور گئے۔ایم کیو ایم کے رکن محمد ابو بکر نے کہاکہ جب سیاستدانوں کی آڈیو ویڈیو لیک کی جاتی تھیں تو انھیں ذلیل کیا جاتا تھا،آج جن ججز کی آڈیوز آرہی ہیں کیا ان کا بھی کوئی حساب لے گا؟،کیا سیاستدان ہی سوال جواب کے لیے رہ گئے ہیں،ججوں کی آڈیو ٹیپس پر فورنزک کرایا جائے ،ہماری اور ججوں کی تنخواہوں کا موازنہ کرلیا جائے۔ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے چیئر مین نور عالم خان نے پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ سے متعلق آئین ایوان میں پڑھ کر سنا دیا۔ نور عالم خان نے کہاکہ 1973 کا آئین کہتا ہے کہ کوئی بھی ممبر جو پارلیمنٹ میں کہتا ہے اسے کوئی نہیں بلا سکتا،اسپیکر قومی اسمبلی اور میرا کچھ کہا آئین کے تحت ہے۔ قومی اسمبلی کے آفیسرز بھی پارلیمنٹ کی کارروائی کسی کورٹ کو نہیں دے سکتے ،پاکستان کا آئین صاف کہتا ہے کوئی بھی کورٹ چاہے کوئی بھی عدالت ہو پارلیمنٹ کی پروسیڈنگ نہیں مانگ سکتے ۔ نور عالم خان نے کہاکہ اسی آئین میں پی اے سی یا کوئی بھی کمیٹی عدالت سے ریکارڈ مانگ سکتی ہے ، اس آئین کی خلاف ورزی ہو رہی ہے پی اے سی کسی بھی کورٹ ،وزارت یا ادارے کے کاغذات چیک کر سکتی ہے،اسپیکر صاحب آپ ہاؤس کے کسٹوڈین ہیں ،ایک لیٹر رجسٹرار سپریم کورٹ کا پی اے سی میں پڑا ہوا ہے۔نور عالم نے کہاکہ کیا ہمیں یہ اختیار حاصل نہیں کہ ہم ان کی کارروائی کو چیک کر سکیں۔نور عالم خان نے کہاکہ آئین مجھے اجازت دیتا ہے اگر سپریم کورٹ کا آفیسر نہیں آتا تو وارنٹ جاری ہونگے۔ نور عالم خان نے کہاکہ میں نے سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر کو بلایا ہے ،اگر سپریم کورٹ کے پرنسپل اکاؤنٹنگ آفیسر نہ آیا تو گرفتار کرکے پی اے پی میں پیش کرنے کا حکم دونگا ۔ انہوںنے کہاکہ اگر ہم ہر قسم کا حساب دے سکتے ہیں تو یہ حساب کیوں نہیں دے سکتے ،ہمیں سپریم کورٹ کو کوئی کارروائی نہیں دینا چاہیے۔ہم سپریم کورٹ کو ریکارڈ دینے کو تیار ہیں مگر سپریم کورٹ پہلے دے ۔مولانا عبدالاکبر چترالی نے کہاکہ ادارے ایک دوسرے کے سامنے آچکے ہیں۔