کراچی (عبدالماجدبھٹی) پاکستان کرکٹ بورڈ کے ڈائریکٹر ویمنز اکیڈمیز اور سابق ٹیسٹ اسپنرندیم خان کو ملازمت سے فارغ کرنے کے بعد پی سی بی انتظامیہ اگلے چند دن میں کچھ مزید بڑی شخصیات کو ملازمت سے فارغ کرنے کی منصوبہ بندی کررہی ہے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان کے دوست اور سابق ٹیسٹ فاسٹ بولر ذاکر خان کو اس ماہ ایک مہینے کا معاہدہ مکمل ہونے کے بعد رخصت کردیا جائے گا۔ ساٹھ سال پورے ہونے کے بعد انہیںگذشتہ مہینے ایک ماہ کی توسیع دی گئی تھی۔ ذمے دار ذرائع کا کہنا ہے کہ ان کی جگہ عثمان واہلہ کو ڈائریکٹر انٹر نیشنل کرکٹ بنانے کی تجویز ہے ، نائیلہ بھٹی پی ایس ایل کمشنر کی ذمے داریاں سنبھالیں گی۔ ذاکر خان 1999 سے پی سی بی میں مختلف عہدوں پر کام کررہے ہیں۔ پی سی بی کے چیف میڈیکل آفیسر نجیب سومرو کو بھی فارغ کرنے کی تیاری کی جارہی ہے ان کی جگہ ڈاکٹر سہیل سلیم کی واپسی ہورہی ہے۔ چیف میڈیکل آفیسر کی موجودگی میں پی سی بی نے ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ اسپورٹس سائنسز کا عہدہ متعارف کرادیا جس پر ڈاکٹر سہیل سلیم واپس آ سکتے ہیں۔ ان کی پاکستان کرکٹ بورڈ کے اعلیٰ عہدیداران سے ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ ندیم خان چند ہفتوں سے اپنے اہل خانہ کے ساتھ برطانیہ میں تھے۔ عمران خان دور میں ڈومیسٹک سسٹم تبدیل ہونے کے بعد ندیم خان نے ملک بھر میں کوچز کی تقرری اور کئی اور اہم فیصلے کیے تھے۔ نجم سیٹھی دور میں ندیم خان کو سائیڈ لائن کر کے پی سی بی منیجمنٹ کمیٹی کے رکن ایزد سید کو قومی اکیڈمی کا سربراہ مقرر کیا گیا تھا۔ ذرائع کے مطابق ڈائریکٹر ایچ آر سرینا آغا کے بعد ندیم خان ملازمت سے فارغ ہونے والےسابق دور کے دوسرے ڈائریکٹر ہیں۔ وہ احسان مانی دور میں با اثر تسلیم کیے جاتے تھے۔ پی سی بی نے ڈائریکٹر میڈیکل اینڈ اسپورٹس سائنسز سمیت 6 عہدوں کے لیے اشتہار جاری کردیا ہے۔ سکیورٹی اینڈ اینٹی کرپشن کے کنسلٹنٹ ، ڈائریکٹر اور جی ایم کے علاوہ منیجر سکیورٹی سینئر منیجر اینٹی کرپشن کے لیے اشتہار جاری کیا گیا ہے۔ واضح رہے کہ ڈاکٹر سہیل سلیم احسان مانی کے دور میں ہیڈ آف میڈیکل ڈیپارٹمنٹ کے عہدے سے الگ ہو گئے تھے، ان کے پی ایس ایل میں کورونا پروٹوکولز کی خلاف ورزیوں کے معاملے پر بورڈ سے اختلافات پیدا ہو گئے تھے۔ جس کے بعد ڈاکٹر نجیب سومرو کو اگست 2021 میں چیف میڈیکل آفیسر مقرر کیا گیا تھا، وہ زیادہ تر قومی ٹیم کے ہمراہ غیرملکی دوروں پر رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ کچھ افسران کے خلاف مالی بے ضابطگیوں کے ٹھوس شواہد ملے ہیں، ان کے خلاف تحقیقات مکمل کرکے معاملات پولیس یا ایف آئی اے کو سونپنے کی تجویز ہے۔