تحریر : عابد علی بھارت شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کی میزبانی کر رہا ہے جس میں پاکستان کے موجودہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری بھی شرکت کر رہے ہیں۔ پاکستان کی جانب سے بارہ سال بعدکوئی وزیر خارجہ بھارت کا دورہ کرینگے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کا قیام2001میں ہوا جس کا بنیادی مقصد سیکیورٹی اشوز خطے میں علاقائی دہشتگردی و مذہی انتہا پسندی کے خلاف کام کرنا ہے۔ اس تنظیم کا محور خطے میں علاقائی امن اور باہمی تعاون کو فروغ دینا رہا ہے۔ پاکستان جو کہ ماضی کی حکومت میں ناکام خارجہ پالیسیوں کے سبب عالمی تنہائی کا شکار بن چکا تھا یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ بنادیا گیا تھا! ایسے میں بلاول بھٹو زرداری کا وزارت خارجہ کا قلمدان سنبھالنا ایک انتہائی مشکل فیصلہ تھا جسے اندرونی و بیرونی ہر محاذ پر تنقید کا سامنا تھا بھی اور ہے بھی مگر پاکستان کے وزیر خارجہ کو ہر محاذ پر پذیرائی مل رہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کے اب تک کے کامیاب وزارت خارجہ کے دورانیے میں کئی اہم معاملات ہیں جن میں پاکستان کو اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرنے میں مدد ملی جن میں سر فہرست پاکستان کا FATF کی گرے لسٹ سے نکلنا، برطانیہ کی جانب سے پاکستان کا نام تھرڈ ورلڈ کنٹریز کی لسٹ سے نکلنا، یورپی یونین سے ٹریڈ کی بحالی سمیت سب سے اہم عالمی برادری کی توجہ دنیا کے بدلتے ہوئے موسمی حالات پر مبذول کرانا ہے۔ گزشتہ برس پاکستان تباہ کن بارشوں و سیلابی صورتحال سے گزرا جس میں پاکستان کا 33 ارب ڈالرز کا نقصان ہوا۔ بلاول بھٹو زرداری نے عالمی برادری سے پاکستان کے لیے موسمیاتی انصاف کی جنگ لڑی اور یہ باور کروایا کہ پاکستان بڑے ممالک کی فضائی آلودگیوں کا شکار ہو رہا ہے اس لیے ہمیں انصاف فراہم کیا جائے۔ بلاول بھٹو زرداری کی کاوشوں سے عالمی برادی نے موسمی اثرات کے سبب پھیلنے والی تباہ کاریوں کے لیے ایک فنڈ قائم کیا جو کہ پاکستان کی کامیابی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ بلاول بھٹو کے دورہ بھارت پر ملک میں موجود دیگر سیاسی جماعتیں شور مچا رہی ہیں۔ نہ صرف حالیہ دورہ بلکہ سیاسی مخالفین بلاول بھٹو زرداری کے دیگر تمام دوروں بھی شدید تنقید کرتے رہے ہیں اور اس تنقید کا سبب یہ ہی معلوم ہوتا ہے کہ ماضی قریب کی حکومت میں پاکستان نہ صرف عالمی تنہائی کا شکار ہوا بلکہ ہمارے اہم ترین دوست ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات ٹھیک نہ رہ سکے۔ سابقہ دور حکومت میں ہی بھارت نے عالمی قوانین کی خلاف ورزی کی اور کشمیر پر قدغن لگائی مگر اس وقت کی حکومت و وزارت خارجہ کوئی ٹھوس عملی اقدام نہ کر پائی۔ سابق وزیر اعظم عمران خان جو کہ اب ہر معاملے کی ناکامی کا الزام دوسروں پر لگاتے نظر آتے ہیں اور اج جب وہ حکومت میں نہیں تو ایک بار پھر وہ اور ان کی جماعت موجودہ حکومت پر تنقید و الزام تراشی تو کرتی نظر آرہی ہے مگر اپنے دور حکومت میں کشمیر پر ہونے والے مظالم پر نہ صرف خاموش رہے بلکہ بھارتی وزیر اعظم سے دوستانہ تعلقات کی بھی خواہش کرتی رہی جو کہ کشمیر کا سودہ کرنے کے مترادف ہے۔ گزشتہ روز بلاول بھٹو زرداری بھارت پہنچے ہیں۔ وہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس میں کشمیر کے مدے پر بات کرینگے اور اس بات پر ضرور زور دینگے کہ بھارت کی جانب سے کشمیریوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو بند کیا جائے نہ صرف یہ بلکہ کشمیریوں کو آزاد حیثیت میں اپنے مستقبل کا فیصلہ کرنے دیا جائے۔ جس طرح بلاول بھٹو زرداری ہر محاذ پر پاکستان کی نمائیندگی کر رہے ہیں جس کی بدولت پاکستان کی کھوئی ہوئی ساکھ بحال ہو رہی ہے دوست ممالک سے ہمارے تعلقات بحال ہورہے ہیں جس کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ عمران خان کے دور حکومت میں پاک چائنا ٹریڈ کوریڈور غیر فعال کیے جانے بعد کے ایک بار پھر بحالی کی جانب گامزن ہے ساتھ ہی پڑوسی ممالک کے ساتھ بھی ہمارے تعلقات میں بہتری آرہی ہے۔ بلاول بھٹو زرداری کی بطور وزیر خارجہ اب تک کی کارکردگی اس بات کی گہری امید دلاتی ہے کہ پاکستان کشمیر کے حوالے سے بھی ایک ٹھوس لائحہ عمل و موقف اپنائے گا جس پر عمل کروانے کی بھی ہر ممکن کوشش کی جائیگی۔