لاہور (امداد حسین بھٹی ) عمران خان کی گرفتاری کے بعد لاہور کی آبادی کے تناسب سے جو احتجاجی مظاہروں اور دھرنے وغیرہ کی توقع کی جا رہی تھی اس کے برعکس چند شرپسند عناصر کا گروہ ہی متحرک رہا، جو چند مقامات پر جلاؤ گھیراؤ کرتا دکھائی دیا جبکہ گزشتہ روز پولیس نے سپریم کورٹ کی جانب سے عمران خان کی گرفتاری کو غیر قانونی قراردینے کے حکم سے پہلے ہی شہر میں امن و امان کی صورتحال کو کنٹرول کر لیا تھا اور مظاہرین صرف زمان پارک تک ہی محدود ہو کر رہ گئے تھے۔ گزشتہ 3 دنوں میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد ڈیڑھ کروڑ سے زائد آبادی والے شہر لاہور میں مظاہرین کی مجموعی تعدادہزار سے ڈیڑھ ہزار تک ہی رہی، جو مختلف ٹولیوں کی صورت میں ریاستی اداروں اور اہم مقامات پر دھاوا بولتے اور جب پولیس جوابی کارروائی کرتے تو یہ بھاگ جاتے ۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ خفیہ اداروں کی جانب سے جو رپورٹس تیار کی گئیں تھیں اس کے مطابق عمران خان کی گرفتاری کے بعد ہزاروں کی تعداد میں کارکن اہم مقامات کو بلاک کر دیں گے اس لئے 40 سے 50 ہزار افراد کی توقع کی جا رہی تھی،پولیس اتنی بڑی تعداد میں گرفتاریاں نہیں کر سکتی تھی ، لیکن جب عمران خان گرفتار ہوئے تو پہلے دن لاہور کے 6 مقامات زمان پارک، لبرٹی چوک، مال روڈ، شاہدرہ، چونگی امرسدھو، بابو صابو وغیرہ پر احتجاج ہوا، جن میں 4 سو سے 6 سو افراد نے مختلف مقامات پر احتجاج کیا اور پھر یہی مظاہرین جن میں نوجوانوں کی بڑی تعداد تھی وہ موٹر سائیکلوں پر دوسرے مقام پر بھی جا کر احتجاج کرتے اسی طرح پولیس اور مظاہرین کا آنکھ مچھولی کا سلسلہ جاری رہا، تاہم مظاہرین کی جانب سے کور کمانڈر ہاؤس کو نذر آتش کرنے کے بعد جب پولیس نے گرفتاریاں شروع کی تو کارکنوں کی بڑی تعداد غائب ہو گئی۔ لاہور پولیس کا کہنا ہے کہ ان دنوں میں اس نے صرف 202 کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ جب پی ٹی آئی قیادت کو معلوم ہوا کہ خان کی گرفتاری کے بعد بڑی تعداد میں مظاہرین باہر نہیں آ رہے تھے اس نے منصوبہ بندی کے ذریعے اپنے کارکنوں کو کہا کہ وہ جگہ جگہ جلاؤ اور گھیراؤ کریں تاکہ لوگوں کو ان کی موجودگی کا زیادہ سے زیادہ احساس ہو، اور معلوم ہو کہ بڑی تعداد میں کارکن باہر آئے ہیں، لہٰذا زمان پارک، لبرٹی، مال روڈ، اپر مال پر زیادہ جلاؤ گھیراؤ کیا گیا ۔