• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

مریم شہزاد

میرا نام سارا ہے اور میں جماعت چہارم میں پڑھتی ہوں ،میں نہ صرف پڑھائی میں بہت اچھی ہوں بلکہ اسکول کے تمام فنکشن میں بھی ضرور حصہ لیتی ہوں۔

میں آج بہت خوش ہوں ،کل مدر ڈے پر میرے اسکول میں فنکشن ہے، جس میں مجھے امی کا کردار ادا کرنا ہے، اسکول میں فائنل تیاری کے بعد بھی آج مجھے گھر میں اچھی طرح سے تیاری کرنی تھی کیونکہ ٹیچر نے کہا تھا کہ امی کو اچھی طرح سے دیکھنا کیسے اٹھتی بیٹھتی ہیں ،کام کرتے وقت دوپٹہ کیسے لیتی ہیں وغیرہ وغیرہ۔

آج چھٹی تھی، مگر اس کے باوجود میں صبح صبح ہی اٹھ گئی اور امی کے ساتھ ساتھ رہی سارا دن میں امی کو دیکھتی رہی کہ کیا کیا کام کس طرح کیا رات کو اچانک یاد آیا کہ مجھے جو کپڑے کل پہننے ہیں اس کا تو دوپٹہ ہی نہیں آیا اب تک ، کیونکہ ابھی میں اتنی بڑی نہیں تھی کہ سب کپڑوں کے ساتھ دوپٹے بنے اکثر کے ساتھ تو میں اسکارف ہی لیتی تھی ،میں نے پریشان ہو کر امی سے کہا توانہوںنے کہا " کوئی بات نہیں ،تم یہ دوپٹہ لے لینا جو میں نے اوڑھا ہوا ہے ،یہ اچھا میچ ہو جائے گا"

" یہ دوپٹہ!------"میں ایک دم پریشان ہو گئی

" کیوں ،کیا ہوا " امی نے پوچھا تو میں نے کہا ،" نہیں کچھ نہیں ، بس میں سونے جارہی ہوں"

میں بستر پر آ کر لیٹ گئی، مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں دور تھی۔ امی کا یہ دوپٹہ ! جووہ صبح سے پہنے ہوئی تھیں۔ میری آنکھوں میں صبح سے اب تک کی امی کی مصروفیات چل رہی تھی تھی صبح صبح امی نے دھلا ہوا دوپٹہ لیا اورکچن میں آ گئیں ناشتہ بناتے بناتے امی نے جتنی دفع ہاتھ دھوئے،دوپٹے سے خشک کئے، برتن دھونے کے بعد بھی ہاتھ دوپٹے سے ہی پونچھے، کھانا پکاتے اور روٹی بنانے میں گرمی کی وجہ سے چہرے پر آیا پسینہ صاف کرنے میں بھی دوپٹہ کام آیا ،چھوٹا بھائی باہر مٹی میں کھیل کر آیا تب اس کے ہاتھوں کی مٹی بھی اسی سے صاف کردی،گرم پتیلی چولہے سے اتار کر سائیڈ میں رکھی تو وہ بھی دوپٹے سے ہی پکڑ کر۔ اُف! میں یہ دوپٹہ کیسے لوں گی میں یہ سوچتے سوچتے سوگئی۔

صبح جب میں اٹھی اور اسکول کے لئے تیار ہو کر باہر آ ئی تو سامنے ہی امی کا دوپٹہ دھلا اور استری کیا ہوارکھاتھا " پتا نہیں امی نے یہ کب دھویا اور استری کیا" میں نے سوچا اور خوشی خوشی دوپٹہ لے کر اسکول چلی گئ

جب اسٹیج پر ہمارا ڈرامہ شروع ہوا تو میں نے جلدی سے امی کی طرح دوپٹہ لیا اور وقتاً فوقتاً امی کی ہی طرح کبھی دوپٹے سے ہاتھ پوچھے تو کبھی پتیلی پکڑ کر اتاری ۔ڈرامے کے اختیتام پر اسکول کا ہال تالیوں سے گونج اُٹھا۔ جب میں اسٹیج سے نیچے آئی تو سب نے بہت تعریف کی۔آخر میں پرنسپل نے بھی میری پرفارمینس کو سراہااور اچھی کار کردگی پر مجھے انعام بھی ملا۔

میں خوشی خوشی گھر پہنچی اور امی کے گلے لگ کر انعام دکھایا اور شکریہ ادا کیا کے وہ ہمارے لیے کتنے کام کرتی ہیں ۔ یہ احساس مجھے آج اسکول کے ڈرامے میں امی کا کردار ادا کر کے ہوا۔ انہوں نےمجھے پیار کرتے ہوئے کہا کہ۔’’ یہ تو ماں کا فرض ہوتا ہے۔ ماں کے دل میں اللہ نے بے پناہ محبت ڈالی ہے۔‘‘ بچوں کا بھی فرض ہے کہ وہ والدین کا کہنا مانیں۔

میں نے خوش ہوکر کہا، ’’ پھر تو میں بہت اچھی بچی ہوں ،آپ کا کہنا مانتی ہوں۔‘‘ دوسرے دن ٹیچرز نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ، واقعی ہم کو تو معلوم ہی نہیں تھا کہ امی دوپٹے سے اتنے سارے کام لیتی ہیں۔