تحریر: (واجد بلوچ ، شاکر حسین بریسلی ) کچھ عرصے پہلے تک ملٹری اسٹیبلشمنٹ کے بلو آئیڈ رہنے والے۔ سابق وزیر عظم عمران اب اُسی اسٹیبشلمنٹ کے سامنے کھڑے ہوگئے ہیں ۔ 9 مئی کو اُن کی اچانک گرفتاری کے بعد تحریک انصاف کے کارکنوں نے جس طریقے سے فوجی تنصیبات اور اعلیٰ فوجی افسران کے دفاتر پر حملہ کیا۔ اُس کے بعد سے اسٹیبشلمنٹ اور عمران خان کے درمیان خلیج مزید بڑھ گئی ہے ۔ 12 مئی کو سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ کی طرف سے غیر معمولی ریلیف ملنے پرعمران خان رہا تو ہوگئے ہیں ،لیکن اُن کی جماعت کے چیلنجز میں مزید اضافہ ہوگیا ہے۔ 10 سے زائد جماعتوں کی اتحادی حکومت اور فوجی قیادت نے واضح پیغام دیا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ تحریک انصاف کے کارکنان کی طرف سے ہوا ہے اور اس میں افغان تاریک وطن بھی شامل ہیں۔ قومی سلامتی اجلاس اور کور کمانڈر کانفرنس میں پیغام دیا کہ یہ حملوں میںملوث لوگوں کا باقاعدہ ٹرائل پاکستان کے متعلقہ قوانین سمیت ملٹری ایکٹ اور آفیشل سیکریٹ ایکٹ کے تحت کیا جائے گا۔ عمران خان نے یہ دعویٰ کردیا ہے کہ فوجی تنصیبات پر حملہ میںایجنسیز کے لوگ شامل تھے اور یہ سب کچھ اس لیے کیا گیا تاکہ تحریک انصاف پر پابندی عائد کی جاسکے۔ عمران خان یہ بیانیہ بنارہے ہیں کہ اُن کی 27 سالہ سیاسی تاریخ پُر امن رہی ہے ۔ مگر 2014 سے لیکر 2023تک عمران خان کی جماعت وہ واحد سیاسی جماعت ہے جس نے ملک میں غیر معمولی طور پر پُر تشدد رویے کو ہوا دی ۔ 2014 میں عمران خان نے چار حلقے کھولنے کیلیے اسلام آباد میں آزادی مارچ کا اعلان کیا مگر بعد میں یہ چار حلقوں کا مطالبہ سابق وزیر اعظم نواز شریف کے استعفے کے مطالبے تک چلا گیا ۔عمران خان نے آزادی مارچ کی اجازت یہ کہہ کر لی تھی کہ وہ اسلام آباد اسٹیڈیم کے پاس محدود رہیں گے مگر بعد میں عمران خان بغیر اجازت ریڈ زون میں داخل ہوگئے ۔ منصوبے کے برخلاف 16اگست2014 کو تحریک انصاف کا آزادی مارچ اسلام آبادکے زیرو پوائنٹ پر پہنچا،پھر 19اگست کو تحریک انصاف اور پاکستان عوامی تحریک نے ریڈزون کی طرف بڑھنا شروع کیااور 20اگست کو مظاہرین ریڈزون میں داخل ہوگئے۔اس کے بعد 30اگست کو دھرنے کی قیادت نے مظاہرین کو وزیراعظم ہاوس جانے کی ہدایت کی،جس کے بعد پولیس اور مظاہرین میں جھڑپیں ہوئیں،پارلیمنٹ کے دروازے کو ٹرک سے توڑنے کی کوشش کی، اگلے دن تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے کارکن سرکاری ادارے پی ٹی وی کی عمارت میں گھس گئے،ملکی تاریخ میں پہلی بار سرکاری ٹی وی کی نشریات بند ہوئیں،پولیس سے جھڑپوں میں تقریبا 500افراد زخمی ہوئے، مشتعل افراد نے پاکستان سیکریٹریٹ میں بھی گھس کے توڑ پھو ڑکی، ڈاکٹر عارف علوی اور عمران خان کی آڈیوٹیپ بھی سامنے آگئی جس میں صدر عارف علوی نے عمران خان کو پی ٹی وی پر حملے کا بتایا اور عمران خان نے اس پر خوشی کا ا ظہار کیا ۔ کچھ عرصے بعد یعنی 2016 میں نواز شریف کیخلاف پانامہ کا کیس شروع ہوا ۔عمران خان اس کیس میں درخواست گزار تھے اور سپریم کورٹ میں اس حوالے سے پیش بھی ہوتے تھے۔ مگر اس دوران عمران خود ایک اشتہاری ملزم تھےلیکن سپریم کورٹ کی طرف سے اُن سے کبھی اس حوالے سے کوئی سوال نہیں پوچھا گیا، 2018میں تحریک انصاف کی حکومت آگئی،عمران وزیراعظم بن گئے،2سال بعد ہی مقدمے سے بری ہوگئے۔ان کی جماعت کا پرتشدد رویہ دوبارہ اُس وقت دیکھا گیا جب اپریل 2022 میں اُن کی حکومت چلی گئی ۔ گزشتہ سال 25 مئی کوعمران خان لانگ مارچ کی قیادت کرتے ہوئے اسلام آبادپہنچے،اورنہ صرف سپریم کورٹ کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے رہےبلکہ اُن کے کارکنوں نے ریڈزون میں داخل ہوکرتوڑپھوڑاورجلاو گھیراؤبھی کیا۔ عمران پر25مئی کے واقعات کی وجہ سےسپریم کورٹ میں توہین عدالت کاکیس چل رہاہےلیکن گزشتہ کئی مہینوں سے اس پرسماعت ہی نہیں ہوئی۔ سپریم کورٹ نے پی ٹی آئی کو ایچ نائن پارک میں احتجاج کرنے کی اجازت دی اوریہ واضح کیاکہ ’’عدالت توقع کرتی ہے کہ تحریک انصاف کی کمیٹی یقینی بنائےکہ پورے ملک اور خصوصا ًاسلام آباد میں ناخوشگوار واقعہ نہ ہو اوراملاک کونقصان نہ پہنچے‘‘۔مگر 25مئی 2022 کو جیسے ہی یہ فیصلہ آیاتو عمران نے کنٹینرپرکھڑے ہوکرسپریم کورٹ کےاس فیصلے کی تعریف کی لیکن ساتھ ہی اپنے کارکنوں کوڈی چوک پہنچنے کی ہدایت بھی کردی۔25 مئی 2022 کو عمران خان کی کال پرڈی چوک پہنچے جہاں رات بھر توڑپھوڑ کی گئی،جلاؤ گھیراؤ کیاگیا۔اگلی صبح عمران نے کارکنوں سےخطاب کیااوراچانک دھرناختم کر دیا۔مگراُس دن سپریم کورٹ میں سماعت ہوئی تو اٹارنی جنرل اشتراوصاف نےعمران خان کاوہ ویڈیوپیغام چلوایاجس میں وہ کارکنوں کوڈی چوک پہنچنے کی ہدایت کررہے تھےتوچیف جسٹس عمر عطاء بندیال نے ریمارکس دیے تھے کہ ’’ممکن ہے کہ عمران خان کو غلط بتایا گیا ہو،اس بیان کے بعد کیا ہوا، یہ بتائیں،ہم عدالت میں کسی پر الزام لگانے کے لیے نہیں بیٹھے۔ پھربعدمیں جب خودعمران خان نےتوہین عدالت سے متعلق اپناجواب جمع کرایا۔مگرگزشتہ دنوں جب نیب نے عمران خان کوگرفتارکیااور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس نےاپنے سامنےاُنہیں پیش کرنے کاحکم دیا، تو اُس دن بھی بینچ میں بیٹھے جسٹس محمد علی مظہر نے اس کیس سے متعلق یاد دلاتے ہوئے ریمارکس دیے تھے کہ ’’تحریک انصاف کےخلاف 25 مئی کوتوہین عدالت کا کیس بھی زیر التوا ہے‘‘۔ مگر چیف جسٹس نےمداخلت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’میرے ساتھی ججز جو کہہ رہے ہیں۔ہمارے سامنے وہ کیس نہیں ہے‘‘۔ تمام ریکارڈ اور شواہد سپریم کورٹ کےسامنے ہیں حکومتی اور ریاستی اداروں کی رپورٹس سپریم کورٹ میں جمع کرائی جاچکی ہیں۔مگرچیف جسٹس نے پچھلے کئی مہینوں سےاس پرسماعت مقرر ہی نہیں کی۔ 28فروری کوتوشہ خانہ کیس میںعمران خان کےناقابل ضمانت وارنٹ کی تعمیل کےلیے 5مارچ 2023کوپولیس زمان پارک پہنچی مگر عمران نےاپنی رہائش گاہ کے باہرکارکنوں کوایک شیلڈکے طورپراستعمال کیا۔پی ٹی آئی کے کارکنوں کاپولیس سے تصادم ہوا۔یوں 7مارچ 2023 کوبھی عمران خان ایک بارپھرتوشہ خانہ کیس میں غیرحاضر رہے،اوراُسی دن اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران کے وارنٹ معطل کرتے ہوئے اُنہیں 13مارچ کوسیشن عدالت میں پیش ہونے کاحکم دیدیا۔لیکن اس کے باوجود 13مارچ کوبھی عمران خان سیشن عدالت میں نہیں گئے،بلکہ لاہور میں ایک ریلی کی قیادت کرتے رہے۔جس کے بعد اُن کا ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری بحال ہوگیا،14مارچ کواسلام آباد پولیس، ڈی آئی جی آپریشنز شہزاد بخاری کی سربراہی میں عمران کو گرفتار کرنے کے لیے زمان پارک پہنچی ،اورایک بارپھرپولیس اورپی ٹی آئی کے کارکن آمنے سامنے آگئے۔آپریشن کی قیادت کرنےوالےڈی آئی جی آپریشنزشہزاد بخاری سمیت 58 پولیس اہلکار ، 8 شہری اورپی ٹی آئی کارکن زخمی ہوئے۔غلیلیں چلائیں اور پتھراؤ کیا،توڑ پھوڑ کی،کارکنوں نے پولیس کی واٹر کینن بھی جلادی،ریسکیو 1122 کا فائر ٹینڈر آگ بجھانے پہنچا تو اسے بھی آگ لگادی،پولیس کی طرف پیٹرول بم بھی پھینکے۔ عمران خان 18مارچ 2023 کوٹرائل کورٹ میں پیش ہونے کےلیےکارکنوں کے ہجوم کے ساتھ جوڈیشل کمپلیکس کے اندرداخل ہوگئے اس دوران ہنگامہ آرائی ہوئی، توڑ پھوڑکی گئی،پی ٹی آئی کے کارکن اورپولیس اہلکاروں میں تصادم ہوا اور پورا جوڈیشل کمپلیکس محصورہوکررہ گیا تھا۔ عمران خان یہ موقف اختیارکرتے تھے کہ کارکنوں کووہ نہیں بلاتے بلکہ وہ خودہی آجاتے ہیں۔یعنی گزشتہ نوسالوں میں باربار سرکاری عمارتوں ،پارلیمنٹ اورپولیس پر حملے کرکے بھی عمران خان مسلسل بچتے رہے ہیں۔ عمران خان کی یہ حکمت عملی گزشتہ 9سال میں تو کامیاب رہی ہے لیکن اب فوجی تنصیبات پر براہ راست حملے کے بعد یہ حکمت عملی اب تحریک انصاف کیلیے بیک فائر کر رہی ہے اور آنے والے دن عمران خان کی جماعت کیلیے مشکلات کا باعث ہوسکتے ہیں۔