کراچی (ٹی وی رپورٹ) جیو کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں گفتگو کرتے ہوئے ماہر برطانوی قوانین بیرسٹر راشد اسلم نے کہا ہے کہ 190ملین پاؤنڈز کے معاملہ پر بھی این سی اے نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا تھا،وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال نے کہا کہ انقلاب لانے کے دعویدار ایسے معمولی تھپیڑوں سے پارٹی نہیں چھوڑتے،میزبان شاہزیب خانزادہ نے تجزیہ پیش کرتے ہوئے کہا کہ ہم نے عمران خان کے دعوے پر سابق وزیرقانون فروغ نسیم سے رابطہ کیا تو انہوں نے جواب دیا کہ عمران خان نے خود 190ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ایڈجسٹ کرنے کا فیصلہ کیا، وزارت قانون نے اس حوالے سے انہیں کوئی مشورہ نہیں دیا، اس حوالے سے سارے حقائق ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ماہر برطانوی قوانین بیرسٹر راشد اسلم نے کہا کہ برطانوی این سی اے کوئی بھی معاہدہ کرنے سے قبل اس حکومت سے اجازت لیتی ہے جہاں سے پیسہ آیا ہو، 190ملین پاؤنڈز کے معاملہ پر بھی این سی اے نے پاکستانی حکومت سے رابطہ کیا تھا، پاکستانی حکومت کی اجازت کے بعد ہی این سی اے کا خفیہ معاہدہ سائن ہوا تھا، اس معاملہ میں دو معاہدے ہوئے تھے ایک صاحب کے ساتھ ہوا تھا جبکہ پاکستانی حکومت نے9 نومبر 2019ء کو برطانوی حکومت کے ساتھdead of confidentiality سائن کی تھی کہ اس کے مندرجات افشاء نہیں کیے جائیں گے،یہاں واضح ہے کہ معاہدہ سے قبل پاکستانی حکومت نے اجازت دی تھی کہ این سی اے یہ معاہدہ سائن کردے یعنی 190ملین پاؤنڈز سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیں، پاکستانی حکومت چاہتی تو سپریم کورٹ کے اکاؤنٹ کے بجائے کسی دوسرے اکاؤنٹ میں پیسے لے سکتی تھی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔ بیرسٹر راشد اسلم کا کہنا تھا کہ اقوام متحدہ کے کنونشن اور برطانوی قانو ن کے تحت یہ 190ملین پاؤنڈز حکومت پاکستان کو واپس ملنے تھے، پاکستانی حکومت کو اختیار تھا وہ کسی اور اکاؤنٹ میں پیسے لے سکتی تھی، این سی اے نے اکاؤنٹ میں ہی پاکستان پیسے بھیجنے ہوتے تو برطانیہ میں فریزنگ آرڈر ختم ہوجاتا اور پیسے اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کردیئے جاتے، اگر سیٹلمنٹ نہ ہوتی تو کیس کورٹ میں جاتا جس میں پاکستانی حکومت بھی فریق بن سکتی تھی، پاکستانی حکومت اس کیس میں فریق بنتی یا نہیں بنتی اقوام متحدہ کے کنونشن کے تحت یہ پیسے پاکستان کو ہی ملنے تھے، اگر یہ ثابت ہوتا کہ بزنس پاکستان کے سوا کسی ملک میں نہیں ہے تو پاکستان سے ہی وہ سورس آف فنڈ بنتا ہے۔