احسن اقبال
اکثر دو باتیں سنے میں آتی ہیں۔ ایک ”اس ملک میں صلاحیت بہت ہے“ اور دوسرے”ہمارے ملک کا مستقبل اب نوجوان سنواریں گے۔“ چہ خوب،جہاں تک صلاحیت کی بات ہے تو نجانے یہ کون سی صلاحیت ہے جوآنکھ مچولی کھیل رہی ہے‘ کھل کر سامنے نہیں آتی۔ مستقبل کی ‘ جس کے بارے میں ہمیں یہ خوش گمانی ہے کہ اُسے یہ باصلاحیت نوجوان سنواریں گے تو اِس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے ملک میں بے شمار ٹیلنٹ موجوہے، جن میں پڑھے لکھے‘ ان پڑھ ‘بے روزگار‘ملٹی نیشنل کمپنیوں کے ایگزیکٹو‘سکالر‘کھلاڑی ‘شاعر ‘ادیب سب شامل ہیں لیکن افسوس کی بات یہ ہے تقریباََ بائیس کروڑ آبادی کے ملک میں ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابرہے ۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ملک کا انتظامی ڈھانچہ ایسے ہنر مند افراد کا ہنر نکھارنے میں کوئی مدد نہیں کرتا، جنہیں قدرت کی طرف سے خداد اد صلاحیت عطا ہوتی ہے ‘نتیجہ یہ کہ جس نوجوان کو چارٹرڈ اکاؤنٹنٹ بننا چاہیے وہ ایم اے اسلامیات میں داخلہ لے لیتا ہے اور جسے تاریخ کا اسکالر بننا چاہیے وہ بی کام کرکے لوگوں کا منہ دیکھتا ہے۔
دوسری جانب نئی نسل کے اخلاق کو سنوارنے کا کوئی نظام موجود نہیں ، ہم نے اخلاق کو بگاڑنے کے تمام اسباب وافر مقدار میں فراہم کر رکھے ہیں۔ گویا نئی نسل دو دھاری تلوار کا ہدف ہے۔ اس کے بچ نکلنے کا امکان بہت کم ہے۔انتہائی دکھ کی بات ہے کہ ہمارا معاشرہ دن بدن اخلاقی پستی کی طرف جا رہا ہے۔ نئی نسل اخلاقیات سے عاری ہوتی جا رہی ہے۔ معاملہ عبادات کا ہو یا معاملات کا، حقوق و فرائض ہوں یا تعلیم و تربیت، امانت، دیانت، صدق، عدل، ایفاے عہد، فرض شناسی اور ان جیسی دیگر اعلیٰ اقدار کا نسل نو میں فقدان دکھائی دیتا ہے۔ تعلیم یافتہ نوجوان اخلاقی تربیت سے بالکل عاری ہیں۔ نئی نسل سے کوئی شکوہ نہیں۔ اسے موردِ الزام ٹھہرانا بھی بے مقصدہے، کیوں کہ اُن کو حالات ہی ایسےملے ہیں ان کو کوئی بتانے والا سکھانے والا نہیں۔
موجودہ سیاسی، معاشی اور سازشی معاشرتی نظام نوجوانوں کی جسمانی، ذہنی، فکری، روحانی اور اخلاقی قوتوں کو تیزی سے ناکارہ بنا رہا ہے۔ نوجوان آبادی کے روز افزوں ہجوم پر ہمارے ماہرین و مفکرین بغلیں بجاتے نہیں تھکتے، لیکن یہ بھولتے ہوئے کہ اُن کے ساتھ کیا کیا بیت رہی ہے اور وہ کیا سے کیا بنتے جا رہے ہیں؟ بےروزگاروں کا جمِ غفیر ہے جو ستاروں پہ کمند ڈالنے کی بجائے، بے ہنری، بے علمی اور بے عقلی کے ہاتھوں بے بس و لاچار ہورہاہے۔ہم جس نظام میں رہ رہے ہیں یہ قدم قدم پراس کے راستے میں رکاوٹیں کھڑی کررہا ہے جو با اخلاق زندگی گزارناچاہتا ہے۔
یہی نوجوان کل دوسرے طبقے میں شامل ہو جائیں گے اور نئے جوان آجائیں گے، اگر ان کی تربیت کا کوئی اہتمام نہ ہوا توان کا معاملہ بھی مختلف نہیں ہو گا۔حقیقت تسلیم کر لینی چا ہیے کہ نوجوان نسل کے حوالے سے ہم من حیث القوم ناکامی کی طرف جا رہے ہیں اور اگر حالات و واقعات کا تسلسل یہی رہا تو وہ دن دور نہیں جب ہماری بقیہ پونجی بھی سرِ راہ لٹ جا ئے اور اس پر آنسو بہانے والا بھی کو ئی نہ ہو۔ہر زمانہ اپنے مسائل اور بیانیہ اسلوب ساتھ لاتا ہے۔ اس لیے زمانی موازنہ ہی بے وقوفی ہے لیکن اس کے باوجود یہ مناسب نہیں کہ یہ احوال ہمیں مایوسی کے غاروں میں دھکیل دیں اور ہم نامرُادی کے اندھیروں میں ڈوب جائیں۔
ہم سب اپنی غلطیوں ،کوتا ہیوں اور سستیوں کا احساس کرتے ہوئے مستقبل کا لا ئحہ عمل طے کریں۔ ملک کا مستقبل سنوارنے کےلئے نئی نسل کوشعور کی ضرورت ہے اور اس کے لیے لازم ہے کہ اعلی تعلیمی اداروں میں اس کا اہتمام کیا جائے۔ یہ مسئلے کا فوری حل ہے۔بعض حلقوں میں اس کا ادراک موجود ہے لیکن اسے نظامِ تعلیم کے مقاصد میں شامل ہونا چاہیے۔ مستقبل کے لیے اس کا آغاز بنیادی تعلیم سے کر نا ہو گا۔ شخصیت کی تعمیر کم سنی ہی میں ہوتی ہے۔
اسکول اور مکتب کے ساتھ خاندان اور گلی محلے کو بھی اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔ والدین کی تشویش اگر صرف بچوں کے گریڈوں اور نمبروں تک محدود رہی اور وہ ان کی اخلاقی تربیت کے بارے میں بے پروا رہے توآنے والے دور میں بھی ہم اسی طرح اخلاقی زوال کا نوحہ لکھتے رہیں گے۔ نوجوانوں کی یہ فوج ظفر موج قلم و کتاب، درس و تربیت، علمیت و حرفیت، بامقصد اور خدمت کرنے کی طلبگار ہے۔ انہیں اپنی زندگی میں نظم و ضبط اور اپنے کام میں حسن اور ترتیب بھی ضرور پیدا کرنی ہوگی۔ آئیے ہم سب مل کر اپنی اپنی ذمہ ادریوں کا احسا س کرتے ہو ئے ایک بہتر مسقبل کے لیے کو شاں ہوجائیں۔