• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

خفیہ ملاقاتیں، معاملات نہیں چل سکتے، حکومت جارحانہ انداز سے گریز کرے، آڈیو لیکس کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، چیف جسٹس

اسلام آباد (نمائندہ جنگ) سپریم کورٹ آف پاکستان میں پنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست پر سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیئے ہیں کہ عدلیہ کی آزادی کا تحفظ کرنا ہے، خفیہ ملاقاتوں سے معاملات نہیں چل سکتے، حکومت جارحانہ انداز سے گریز کرے، عدالت نے آڈیو لیکس کمیشن کالعدم قرار نہیں دیا، کسی چیز پر تحقیقات کرانی ہیں تو باقاعدہ طریقہ کار سے آئیں، چیف جسٹس نےحکومت کو جارحانہ انداز اختیار کرنے سے گریز کا مشورہ بھی دیدیا.

دوران سماعت اٹارنی جنرل نے انکشاف کیا کہ صدر مملکت کی منظوری کے بعد چیف جسٹس کے اختیارات سے متعلق قانون جمعہ سے نافذ ہوچکا، ایکٹ کا دائرہ کار قانون بننے سے پہلے کے فیصلوں پر سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کے رولز پر بھی ہوگا، نظرثانی درخواست کی سماعت لارجر بنچ کریگا، نئے ایکٹ کے تحت نظر ثانی کا دائرہ کار اب اپیل جیسا ہی ہوگا،اس پر جسٹس منیب اختر نے ریمارکس دیئے کہ نظرثانی قانون سے متعلق سن کر الیکشن کمیشن کے سجیل سواتی کے چہرے پر مسکراہٹ آئی ہے.

 چیف جسٹس نے کہا کہ جمعرات کو سپریم کورٹ پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کی سماعت ہے، دوسرے فریق کی موجودگی میں سنیں گے، تحریک انصاف کو بھی قانون سازی کا علم ہونا چاہیے، بعدازاں عدالت نےپنجاب میں انتخابات کرانے کے فیصلے کیخلاف الیکشن کمیشن کی نظرثانی درخواست کی سماعت ملتوی کردی۔

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازلاحسن اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی اسپیشل بینچ نے پیر کے روز الیکشن کمیشن کی نظر ثانی درخواست کی سماعت کی تودرخواست گزار الیکشن کمیشن کے وکیل نے ابھی بولنا شروع کیا تو اٹارنی جنرل بھی روسٹرم پر آگئے اور کہا کہ ان کے دلائل سننے سے قبل مجھے کچھ کہنا ہے ،عدالت سے اجازت ملنے کے بعد انہوں نے موقف اختیار کیا کہ صدر مملکت نے ’’سپریم کورٹ ریویو آف ججمنٹس اینڈ آرڈر ایکٹ 2023‘‘پر دستخط کردیئے ہیں جسکے بعد اب یہ قانون بن چکا ہے اور قانون کا باقاعدہ گزٹ نوٹیفکیشن ہونے کے بعد جمعہ سے نظر ثانی قوانین کا اطلاق ہوچکا ہے۔ جسٹس منیب اختر نے کہا کہ نظرثانی قانون سے متعلق سن کر الیکشن کمیشن کے وکیل کے چہرے پرمسکراہٹ آگئی ہے۔

اٹارنی جنرل نے مزید کہا کہ نئے ایکٹ کے تحت اب نظرثانی اپیل پر فیصلہ دینے والے بنچ سے بڑا بنچ ہی نظر ثانی کی درخواست کی سماعت کر سکتا ہے اور نئے ایکٹ کے تحت نظرثانی کا دائرہ اختیار اپیل جیسا ہی ہوگا،جس پر چیف جسٹس نے کہاکہ یہ تو بڑا ہی دلچسپ معاملہ ہوگیاہے، یہ عدالت عدلیہ کی آزادی کے بنیادی حق کو بھی دیکھتی ہے، آپ اس سے متعلق حکومت سے ہدایت لے لیں۔

 انہوں نے استفسار کیا کہ کیا فریق مخالف(عمران خان،پی ٹی آئی) کو قانون کے بارے میں معلوم ہے،جس پر اٹارنی جنرل نے کہا کہ پی ٹی آئی کے وکیل علی ظفر جنرل ایڈجرنمنٹ ( چھٹی) پر ہیں۔

اہم خبریں سے مزید