• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد : (عمر چیمہ)…اگرچہ نیب نے بزنس مین سے فوائد لینے پر عمران خان کے خلاف تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے لیکن برطانیہ کی نیشنل کرائم ایجنسی (این سی اے) اور بزنس مین کی فیملی کے درمیان ۱140؍ ملین پاؤنڈز کی عدالت سے باہر ہونے والے تصفیے سے متعلق دستخط شدہ اہم دستاویز تاحال غائب ہے۔

نیب نے این سی اے سے یہ دستاویز حاصل کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکی۔ اس سے قبل حکومت بھی ایسی ہی ایک کوشش کر چکی ہے جس میں اسے ناکامی ہو چکی ہے۔

 این سی اے نے ابتدائی طور پر یہ دستاویز نیب کو غیر رسمی طور پر فراہم کرنے پر آمادگی ظاہر کی تھی کیونکہ دونوں ملکوں کے انسداد کرپشن کے اداروں کے مابین معلومات کا تبادلہ ہوتا رہتا ہے لیکن یہ معاملہ غیر معمولی ہے۔

نیب کے ایک عہدیدار نے دی نیوز کو بتایا ہے کہ این سی اے کی دلیل ہے کہ عدالت سے باہر تصفیہ انتہائی حد تک خفیہ ہے اور خلاف ورزی کے قانونی مضمرات ہوں گے۔ جس عہدیدار نے یہ دستاویز دیکھی ہے اس کا کہنا ہے اس دستاویز کو وزیر اعظم عمران خان کی زیرقیادت کابینہ نے خفیہ (کلاسیفائیڈ) قرار دیدیا تھا، اس میں این سی اے اور بزنس مین کی فیملی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی تفصیلات موجود نہیں ہیں۔

 انہوں نے مزید کہا کہ یہ خفیہ دستاویز صرف تصفیہ (این سی اے اور بزنس مین کی فیملی کے درمیان) خفیہ رکھنے کیلئے تھی۔ عمران خان حکومت میں احتساب کیلئے مقرر کردہ ٹاپ عہدیدار بیرسٹر شہزاد اکبر، اور ان کے نائب بیرسٹر ضیا نسیم نے اس دستاویز پر حکومت پاکستان کے نمائندے کی حیثیت سے دستخط کیے تھے۔

ضیا نسیم اثاثہ ریکوری یونٹ میں شہزاد اکبر کے ماتحت کام کرتے تھے اور جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کیخلاف ریفرنس بھی انہوں نے ہی بنایا تھا۔

موجودہ حکومت کی جانب سے دستاویز کی جانچ کیلئے بنائی گئی کابینہ کی ذیلی کمیٹی نے ضیا نسیم کو سوالات پوچھنے کیلئے طلب کرکے این سی اے کے ساتھ دستخط شدہ تصفیہ کی تفصیلات بتانے کیلئے دباؤ ڈالا گیا لیکن ضیا نسیم نے لاعلمی کا اظہار کیا۔

انہوں نے کہا کہ وہ صرف اس دستاویز (کابینہ کے ذریعہ کلاسیفائیڈ) کے بارے میں جانتے ہیں جس پر انہوں نے بطور گواہ دستخط کیے تھے۔

اس صورتحال سے غیر مطمئن کابینہ کمیٹی نے ضیا نسیم کو خبردار کیا کہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر ڈال دیا جائے گا  لیکن جب تک ایسا ہو، تب تک ضیا نسیم اسی شام پاکستان سے بھاگ گئے۔

 نیب نے جیسے ہی یہ معاملہ اٹھایا، اصل دستاویز کی تلاش شروع ہوگئی۔ وہ افسر جو دسمبر 2019 میں کابینہ سیکریٹری تھا وہ انتقال کر گیا۔ ان کے جانشین سے بھی رابطہ کیا گیا اور انہوں نے مطلوبہ دستاویز کی موجودگی سے انکار کردیا۔

اسی ناکامی کے بعد نیب نے برطانوی این سی اے سے رابطہ کیا جس نے ابتدائی طور پر تفصیلات کو غیر رسمی طور پر شیئر کرنے پر رضامندی ظاہر کی لیکن بعد میں قانونی مضمرات کا حوالہ دیتے ہوئے پیچھے تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ تصفیہ اور معاہدے کی اصل دستاویز فراہم کرنے کی بجائے این سی اے نے نیب کے خط کا جواب دیتے ہوئے کچھ تفصیلات فراہم کیں۔ اس میں پراپرٹی ٹائیکون سے ’’ریکوری‘‘ کا ذکر تھا۔ ’’نومبر 2019 میں لندن میں بزنس مین کی فیملی سے برآمد کی جانے والی رقم تقریباً 150 ملین پاؤنڈ تھی۔ یہ تمام رقم اسلامی جمہوریہ پاکستان کی سپریم کورٹ کے زیر انتظام اکاؤنٹ میں منتقل کی گئی۔ مزید ایک جائیداد، نمبر 1 ہائیڈ پارک پلیس، لندن 40؍ ملین پائونڈز میں فروخت ہونے والا ہے۔ این سی اے کے خط مورخہ 9 نومبر 2021 میں لکھا ہے کہ تمام رقم ملنے کے بعد اس میں سے برطانوی ٹیکس منہا کیا جائے گا اور باقی ماندہ رقم سپریم کورٹ کے اسی اکائونٹ میں منتقل کی جائے گی۔‘‘ تاہم بیرسٹر شہزاد اکبر کی جانب سے نیب کو جمع کرایا گیا جواب این سی اے کے موقف کے برعکس ہے۔

این سی اے کے خط سے واضح ہوتا ہے کہ رقم بزنس مین کی فیملی سے ریکور کی گئی لیکن شہزاد اکبر کا کہنا ہے کہ بزنس مین کی فیملی نے رضاکارانہ طور پر رقوم پاکستان کو واپس بھیجیں۔

انہوں نے یہ جواب 17؍ مئی کو نیب کے سوالنامے کے جوابات دیتے ہوئے پیش کیا ہے۔ جب یہ سوال کیا گیا کہ نیب این سی اے اور بزنس مین کی فیملی کے درمیان طے پانے والے معاہدے کی دستاویز کیسے حاصل کرے گا، اس پر نیب عہدیدار کا کہنا تھا کہ اس کیلئے بزنس مین پر دباؤ ڈالا جا سکتا ہے کیونکہ کیونکہ ان کا خاندان اس کیس میں فریق ہے۔

عمران خان سے کئی ماہ قبل، وہ سوالات کے جوابات دینے نیب میں پیش ہوئے تھے۔ تاہم، زیادہ تر مقدمات میں، انہوں نے وقت مانگا اور تحریری سوالات کی درخواست کی، اور کہا کہ ان کا جواب وہ اپنے وکیل سلمان اسلم بٹ کے ذریعے دیں گے، جو موجودہ حکومت کے اعلیٰ عہدیداروں سے قربت رکھتے ہیں۔ وہ نواز شریف کے دور میں اٹارنی جنرل رہ چکے ہیں۔

اہم خبریں سے مزید