میزبان: محمد اکرم خان
ایڈیٹر، جنگ فورم
رپورٹ : طلعت عمران
شرکاء: عارف حبیب (چیئرمین،عارف حبیب گروپ)
عبدالقادر میمن (سربراہ/سابق صدر، پا کستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
سید ظفر احمد (صدر، کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن)
فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے پاس ٹیکس جمع کرنے کی استعداد ہی نہیں، کرپشن کی وجہ سے قوانین کا نفاذ نہیں ہو پاتا، جی ڈی پی میں بڑے معاشی شعبوں کا ٹیکس نیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے، دولت کمانے کو جرم نہ سمجھا جائے، دولت سے ہی صنعتیں چلتی ہیں روزگار ملتا ہے، ریونیو حاصل ہوتا ہے، سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، امن وامان کی خراب صورت حال بیرونی سرمایہ کاری میں رکاوٹ ہے، غیرملکی مالی ذخائر کی کمی تشویش ناک ہے، بیرون ملک پاکستانیوں کو سرمایہ کاری کے لئے ترغیبات دی جائیں، زراعت، کان کنی اور آئی ٹی سیکٹرز میں دوست ممالک کو آمادہ کیا جائے، حکومت کنسٹرکشن کے شعبے کو فروغ دے، شرح سود میں کمی کی جائے، سرمایہ کی بیرون ملک منتقلی بڑا مسئلہ ہے، پڑوسی ممالک سے تجارت نہ ہونے سے نقصان ہے ہمیں دوسروں کے تنازعات میں پڑنے کی بجائے اپنی معیشت کی بہتری پر توجہ دینی ہو گی
عارف حبیب
ٹیکس نیٹ میں اضافہ کے لئے آٹو میشن کا نفاذ ضروری ہے، سیلز ٹیکس کے نظام کو اصل صورت میں نافذ کرنے کی ضرورت ہے،
جی ڈی پی زراعت کا حصہ چوبیس فی صد ہے لیکن ٹیکس نیٹ میں اس کا حصہ صرف ایک فی صد ہے، ٹرانس پورٹ، ہول سیل اور ری ٹیل شعبوں کو ٹیکس نیٹ میں لانا ہوگا، ٹیکس ریفارم کمیشن نے بجلی کے بلوں کے ذریعے ٹیکس وصولی کی تجویز دی ہے حکومت کا یہ سوچنا غلط ہے کہ ٹیکس ریٹ کی کمی سے وصولی کم ہو جائے گی، زیادہ منافع کمانے کے لئے کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے، ٹیکس پالیسی میں تسلسل رکھنا چاہیے اس سے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ہو گی، جہاں آمدنی وہاں ٹیکس کا اصول اپنایا جائے
عبدالقادر میمن
فیڈرل بورڈ آف ریونیو ٹیکس بار کی تجاویز پر عمل نہیں کرتا، پلانٹڈ مشینری پر کریڈٹ کو بحال کیا جائے، دو برس سے ٹیکس بیسڈ بڑھانے کا شعبہ ختم ہو چکا ہے، ایف بی آر بی ٹی بی کو بحال کرے اور ٹیکس کریڈٹ کے سلسلے کو بھی شروع کرے، پاکستان کا مینو فیکچرنگ سیکٹر سب سے بڑا ٹیکس پئیر ہے، اسے مشینری لگانے کے مرحلے پر چھوٹ دی جائے
سید ظفر احمد
اس وقت پاکستان اندرونی اور بیرونی طور پر وسائل کی کمی کا شکار ہے۔ اندرونی طور پر دیکھا جائے تو پاکستان کا بجٹ خسارہ زیادہ اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو بہت کم ہے جب کہ بیرونی طور پر ہمیں ڈالرز کی کمی کا سامنا ہے اور اس وقت پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے اور پھر پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ بھی نہیں ہو پا رہا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کےتعاون سے ٹیکس ہائوس میں’’معیشت بہتر ہوگی؟‘‘کے موضوع پر پری بجٹ جنگ فورم کا انعقاد کیا گیا۔
فورم کی میزبانی کے فرائض ایڈیٹر جنگ فورم محمد اکرم خان نے سرانجام دیئے۔ عارف حبیب گروپ کے چیئرمین عارف حبیب، پاکستان ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے سربراہ اور سابق صدر، عبدالقادر میمن اور کراچی ٹیکس بار ایسوسی ایشن کے صدر سید ظفراحمد اظہار خیال کیا۔ جنگ فورم میں ٹیکس نیٹ میں اضافے اور بجٹ خسارے میں کمی کے حوالے سے زیادہ بات کی گئی۔ اس موقع پر ہونے والی گفتگو ذیل میں پیش کی جا رہی ہے۔
جنگ: ٹیکس بار ہمیشہ ٹیکس میں اضافے کے حوالے سے تجاویز دیتا ہے۔ اس مرتبہ حکومت کو کیا تجاویز دی گئی ہیں۔ دوسری جانب ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیسے کیا جا سکتا ہے؟
سید ظفراحمد: ہم ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے بارہا تجاویز دے چکے ہیں۔ اس کے دو حصے کیے جا سکتے ہیں۔ جب ہم بجٹ کے حوالے سے تجاویز دیتے ہیں تو یہ صرف 50فیصد حصہ ہے جب کہ ایف بی آر جو اس پر عمل درآمد کرتا ہے، اسے تجاویز دینے کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی سے دو سال سے بی ٹی بی کا شعبہ ختم ہو چکا ہے۔ بی ٹی بی کو بہت سے طریقوں سے بڑھایا جا سکتا ہے۔ 1979ء کے آرڈیننس میں ہر فرد کے پاس ٹیکس کریڈٹس موجود تھے۔
اگر کوئی فرد کسی بھی مد میں اخراجات کرتا تو اسے اس بات کی کھلی چھٹی تھی کہ وہ ہر خرچے کے لیے ٹیکس کریڈٹ کلیم کرتا تھا۔ ہم نے خود یہ ٹیکس کریڈٹ سسٹم ختم کیا۔ یعنی ہم نے بی ٹی بی کا دروازہ خود ہی بند کر دیا۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ ایف بی آر بی ٹی بی کو بحال کرے اور ٹیکس کریڈٹ کا سلسلہ بھی بحال کیا جائے۔
جنگ: آپ حکومت کو کن ذرائع سے ٹیکس نیٹ میں اضافے کی تجویز دیں گے؟
سید ظفراحمد: ہم ہر سال ڈھیروں تجاویز دیتے ہیں لیکن ان پر عملدرآمد نہیں ہوتا۔ اس مرتبہ بھی ہم کچھ تجاویز بھیج رہے ہیں جن میں سے چند اہم تجاویز میں آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں۔ پاکستان کا مینو فیکچرنگ سیکٹر سب سے بڑا ٹیکس پیئر ہے جو جی ڈی پی کا 24فیصد ٹیکس ادا کرتا ہے۔ آج سے چند برس پہلے جب کوئی صنعت کار 100 کروڑ کی مشینری لگاتا تھا تو اسے 10کروڑ کی چھوٹ ملتی تھی لیکن پھر اس 10فیصد کو صفر کر دیا گیا۔ ہماری پہلی تجویز تو یہ ہے کہ پلانٹڈ مشینری پر کریڈٹ کو بحال کیا جائے۔
ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ زمین کی قیمت میں گزشتہ دس برس کے دوران غیر معمولی اضافہ ہوا ہے اور اب اگر کوئی صنعت کار چار ایکڑ پر انڈسٹری لگاتا ہے تو اس کے 3ارب روپے زمین کی خریداری پر خرچ ہو گئے۔ وقت گزرنے کے ساتھ مشینری کی کارکردگی اور قیمت کم ہو جاتی ہے لیکن زمین کی قیمت بڑھتی رہتی ہے۔ کسی صنعت کار نے زمین خرید کر اسے استعمال اور دوبارہ فروخت کرنے کے حقوق لیے ہیں تو ہم نے پہلی مرتبہ یہ تجویز دی ہے کہ اس پر ایموٹائزیشن دے دیں۔
اس سے صنعت کار فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا کم از کم آدھا سرمایہ جو زمین پر خرچ ہو گیا تو اسے 25سال تک 2فیصد ایموٹائزیشن ملتا رہے گا۔ ہماری دوسری تجویز یہ ہے کہ انڈسٹری کے شیئر اگر میں چار سال رکھ کر بیچتا ہوں تو مجھے استثنیٰ مل جاتا ہے اور اگر پرائیویٹ کمپنی کے شیئر میں دس سال بھی رکھ کر بیچتا ہوں تو مجھے استثنیٰ نہیں ملتا۔ اس کی وجہ سے عدم مساوات پیدا ہو گئی ہے۔
جنگ: 2010ء میں پی پی کی حکومت نے ویٹ کے نفاذ کی کوشش کی تھی لیکن نہیں ہو سکا۔ اس حوالے سے آپ سمیت دیگر ماہرین معیشت نے تجاویز دی تھیں۔ کیا یہ تجاویز آج بھی کارآمد ہیں ؟
عبدالقادر میمن: کسی بھی ملک میں کوئی بھی شخص بخوشی ٹیکس نہیں دینا چاہتا ہے اور اس کے لیے آٹومیشن کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ ٹیکس نیٹ کے اضافے کے لیے آٹومیشن ضروری ہے۔ سب سے پہلے تو ہم نے ساری انفارمیشن کو اکٹھا کر کے ایک جگہ جمع کرنا ہے۔ آج کے سیلز ٹیکس اور ویٹ میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دراصل ویٹ کے قانون کو لانے میں رکاوٹ آ رہی تھی تو سیلز ٹیکس کے قانون کو ویٹ کی شکل دے دی گئی۔
جنگ: ویٹ میں پروفیشنلز کو بھی ٹیکس نیٹ میں لانا تھا اور ابھی وہ ٹیکس نیٹ سے باہر ہیں؟
عبدالقادر میمن: پروفیشنلز ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ یہ سروسز کا شعبہ ہے اور صوبائی حکومتوں کو یہ ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ اب سیلز ٹیکس کو اتنا توڑ مروڈ دیا گیا ہے کہ اس کی اصل روح ہی نہیں رہی۔ سیلز ٹیکس کے قانون کو اصل شکل میں لانے کی ضرورت ہے، کیوں کہ اس میں اتنی تبدیلیاں کر دی گئی ہیں کہ ان کی وجہ سے ٹیکس پیئرز کو تکلیف اٹھانا پڑ رہی ہے، جب کہ ٹیکس کی چوری روکی نہیں جارہی۔
جنگ:ہم ٹیکس نیٹ میں اضافہ کیسے کرتے ہیں۔ ہمارا ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو صرف 9 فیصد ہے جب کہ بھارت میں 15 فیصد ہے اور بنگلا دیش میں بھی پاکستان سے زیادہ ہے۔
عبدالقادر میمن: پوری دنیا میں یہ ہوتا ہے کہ جو بھی سیکٹرز گراس جی ڈی پی کی تشکیل میں حصہ لیتے ہیں، وہ کم و بیش اتنا ہی ٹیکس دیتے ہیں، لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک میں ایسا نہیں ہے۔ مثال کے طور پر آج جی ڈی پی میں زراعت کا حصہ 24فیصد ہے لیکن آج بھی ٹیکس نیٹ میں اس کا حصہ ایک فیصد سے بھی کم ہے۔ اس کے برعکس مینوفیکچرنگ سیکٹر ٹیکس کا 70فیصد ادا کرتا ہے جس کی وجہ سے جی ڈی پی میں اس کا حصہ 24 فیصد سے کم ہو کر 19فیصد رہ گیا ہے۔
اب دو سیکٹر ایسے ہیں جن کے لیے سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔ یہ سیکٹر ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر ہیں۔ اس وقت ہول سیل اور ری ٹیل سیکٹر 22 فیصد ہو گیا ہے جو کبھی 15 فیصد ہوتا تھا جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ 3فیصد سے بھی کم ہے۔ ٹرانسپورٹ کا حصہ 10 فیصد ہے جب کہ ٹیکس میں اس کا حصہ بمشکل 3فیصد ہے۔ ٹیکس نیٹ نہ بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ جی ڈی پی میں حصہ لینے والے سیکٹرز ٹیکس ادا نہیں کر رہے۔
جنگ: ہم ان سیکٹرز سے ٹیکس کی وصولی کے لیے کوئی میکنزم کیوں نہیں بنا رہے؟
عبدالقادر میمن: دراصل احتجاج اور سیاسی دبائو کی وجہ سے حکومت پیچھے ہٹ جاتی ہے۔ اس مرتبہ ٹیکس ریفارم کمیشن نے دوبارہ یہ تجویز دی ہے کہ بجلی کے بلوں اور ٹیئر ون کے ذریعے ٹیکس وصول کیا جائے۔ آپ کو یہ جان کر حیرانی ہو گی کہ ٹرانسپورٹ سیکٹر میں اس وقت ڈیلیوری گڈز اور پسنجر گڈز پر کوئی ٹیکس نہیں ہے۔ حکومت کہتی ہے کہ ہم ان سے ٹیکس دینے کی بات کرتے ہیں تو یہ گاڑیاں کھڑی کردیتے ہیں جس کی وجہ سے مواصلات کا نظام معطل ہو جاتا ہے۔
اس وقت جی ڈی پی میں ٹرانسپورٹ سیکٹر کا حصہ 40فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ ہم حکومت کو یہ تجویز دیتے ہیں کہ اگر یہ ٹیکس ادا نہیں کر رہے تو شروع ہی میں اس سے ٹیکس وصول کر لیا جائے۔ مثال کے طور پر اگر کوئی ٹرانسپورٹر 5 کروڑ روپے کا ٹرک لیتا ہے تو اس سے شروع ہی میں ٹیکس وصول کر لیا جائے۔ ٹیکس کی ادائیگی کو گاڑی کی رجسٹریشن سے مشروط کیا جائے۔ اس سے ٹیکس نیٹ میں بھی اضافہ ہو گا اور مینوفیکچرنگ سیکٹر پر دبائو کم ہوگا۔
جنگ: ٹیکس نیٹ میں زیادہ حصہ ان ڈائریکٹ ٹیکسز کا بھی ہے۔
عبدالقادر میمن: پچھلے 10 ماہ کے دوران ان ڈائریکٹ ٹیکسز کے مقابلے میں ڈائریکٹ ٹیکسز کا تناسب بڑھا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پچھلے سال جو تین نئے ٹیکسز لگائے گئے، وہ ڈائریکٹ ٹیکسز کی شکل میں تھے۔ دوسرا ہم نے امپورٹ کو روک دیا ہے۔ بد قسمتی سے پاکستان کی تاریخ میں رواں سال ایسا پہلی مرتبہ ہو گا کہ ہمارا جی ڈی پی نیگیٹو ہو گا۔
لوگوں کا کاروبار کرنے دیا جائے تو جی ڈی پی بڑھے گی۔ دنیا بھر میں انفرااسٹرکچر پر آنے والی اوسط لاگت 8 فیصد ہے جب کہ ہمارے ملک میں 24فیصد سے بھی زاید ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہمارے ریلوے کارگو غیر فعال ہے۔
جنگ: بجٹ خسارے کو کس طرح کم کیا جاتا ہے اور ٹیکس ٹو جی ڈی پی ریشو میں کس طرح اضافہ ممکن ہے؟
عارف حبیب: پاکستان میں وسائل کی بہتات ہے لیکن مس مینجمنٹ کی وجہ سے آج ہمارا یہ حال ہے۔ ہمارے ہاں کرپشن بہت عام ہے اور کرپشن ہی کی وجہ سے قوانین نافذ نہیں ہو پاتے۔ ہماری جی ڈی پی میں حصہ لینے والے بڑے سیکٹرز کا ٹیکس نیٹ میں حصہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ ان سیکٹرز سے ٹیکس وصول نہیں کیا جا رہا ہے اور نہ ہی اس حوالے سے کوئی سیاسی عزم پایا جاتا ہے۔ ایف بی آر ہی صرف رضاکارانہ طور پر ٹیکس لے سکتا ہے، وگرنہ اس کے پاس ٹیکس وصول کرنے کی استعداد ہی نہیں ہے۔ پھر ہمارے ہاں دولت کمانے کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔
حالاں کہ دولت ہی سے انڈسٹریز لگتی ہیں اور معاشرے میں بہتری آتی ہے۔ پاکستان کی آبادی 23کروڑ ہے اور ہماری جی ڈی پی 340 ارب ڈالرز ہے، حالاں کہ پاکستان سے کم آبادی والے ممالک کی جی ڈی پی بھی اس کے آس پاس ہی ہے جب کہ آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے ہمارے پاس بہت زیادہ مواقع موجود ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسیٹ ہے۔ ہمارے ملک میں امن و امان کی صورتحال بہتر نہ ہونے کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی جس کی وجہ سے ہمارے پاس غیر ملکی مالی ذخائر نہیں ہیں۔ پھر اوورسیز پاکستانی بھی پاکستان میں سرمایہ کاری نہیں کرتے۔
وہ ترسیلات زر تو یہاں بھیجتے ہیں لیکن سرمایہ کاری بیرون ملک ہی کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر اگر وہ سالانہ اوسطاً 30 ارب ڈالرز بھیج رہے ہیں تو اتنی ہی رقم اپنے پاس رکھ لیتے ہیں۔ ہم انہیں اس رقم سے ملک میں سرمایہ کاری کی ترغیب دے سکتے ہیں۔ دوسرا ہمیں اپنی چادر دیکھ کر پائوں پھیلانا چاہیے اور زیادہ اخراجات کی وجہ ہی سے ہمارا کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسیٹ بڑھ رہا ہے۔ ہماری امپورٹس ہماری ایکسپورٹس اور ترسیلات زر سے زیادہ نہیں ہونی چاہئیں۔ مفتاح اسمٰعیل کے اس فیصلے کے بعد ہماری ایکسپورٹس سرپلس ہوئی ہیں۔ اس وقت مشینری کی امپورٹس کم ہوئی ہیں اور اس وقت ہماری انڈسٹریز میں استعداد سے زیادہ مشینری موجود ہے۔
اس کے علاوہ آٹوموبل کی امپورٹس کم ہوئی ہے۔ اس سے پاکستان کی جی ڈی پی کوئی خاص فرق نہیں پڑا۔ اگر اے سی کی امپورٹس بھی کم ہوجائے تو کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اگر ہم اپنا کرنٹ اکائونٹ ڈیفیسیٹ کنٹرول کریں اور امن و امان کی صورتحال بہتر کریں تو پاکستان دوبارہ اپنے پائوں پر کھڑا ہو سکتا ہے۔ پچھلے دنوں ہماری آرمی چیف سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ زراعت، کان کنی اور آئی ٹی میں ہمارے پاس مواقع ہیں اور دوست ممالک کو ان سیکٹرز میں سرمایہ کاری کے لیے آمادہ کیا ہے۔ وہ ایڈوانس ایکویٹی کے طور پر پیسہ دیں گے۔ اگر کان کنی میں دیکھا جائے تو صرف ریکوڈیک ہی کے ذریعے سالانہ 5سے 6بلین ڈالرز کی ایکسپورٹ کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ آئی ٹی میں بھی بڑے مواقع ہیں۔ ہم نے انہیں تجویز دی کہ کنسٹرکشن پر بھی توجہ دیں۔ پاکستان میں کنسٹرکشن کے شعبے میں کام کرنے سے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ ٹیکس بڑھانے سے زیادہ وسائل کا بہتر استعمال زیادہ آسان رہے گا۔ بجٹ میں سب سے بڑی گنجائش انٹرسٹ ریٹ کی ہے۔ اس وقت ہمارا انٹرسٹ ریٹ 21فیصد ہے۔ ہمیں اپنا انٹرسٹ ریٹ کم کرنا چاہیے کیوں کہ اس کی وجہ سے ہمیں ہر سال کھربوں کا نقصان ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ دفاعی بجٹ پر قابو پانا چاہیے۔ اگر ہم نے انٹرسٹ ریٹ اور دفاعی بجٹ پر قابو پا لیا تو ہم عوام کو مراعات دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ عوام پر نت نئے ٹیکسز عائد کرنے اور سختیوں کے بجائے معاشی سرگرمیاں تیز کرنی چاہئیں۔
جنگ: پاکستان کا آئی ایم ایف سے معاہدہ نہیں ہو رہا تو کیا پاکستان کے دیوالیہ ہونے کا خدشہ ہے؟
عارف حبیب: بہت سے لوگ تو یہ چاہتے ہیں کہ آئی ایم ایف سے معاہدہ نہ ہو لیکن معاہدہ ہونے کے بعد پاکستان معیشت ڈسپلنڈ ہو جائے گی اور بیرونی سرمایہ کاری بھی ہونے لگے گی۔
جنگ: اطلاعات ہیں کہ بجٹ کے بعد معاہدہ ہو جائے گا؟
عارف حبیب: اگر بجٹ کے بعد ہو جائے تو زیادہ بہتر ہو گا۔
ذیشان :کیا دولت پیدا کیے بغیر اکانومی کو ٹرن ارائونڈ کیا جا سکتا ہے؟ ہمارے ہاں ایک تنخواہ دار 35فیصد انکم ٹیکس ادا کر رہا ہے۔ اگر زیادہ تنخواہ والا ہے تو سپر ٹیکس ادا کر رہا ہے اور اسی طرح ایک کاروباری شخص 45فیصد ٹیکس ادا کر رہا ہے تو کیا ایسی صورت میں کاروبار کرنا ممکن ہے؟ کیا ایسا ممکن ہے کہ ہم ٹیکس ریٹ کم کر دیں تو ہمارا ٹیکس نیٹ خود بخود ہی بڑھ جائے گا اور میرا آخری سوال یہ ہے کہ ہم آئی ٹی سیکٹر کو ٹیکس نیٹ میں اضافے کے لیے استعمال کیوں نہیں کر رہے؟
عارف حبیب: اگر کوئی سرمایہ دار کوئی انڈسٹری لگاتا ہے تو اس سے دوسروں کو روزگار کے مواقع ملیں گے اور پھر مزید انڈسٹریز قائم ہوں گی اور اس کے ساتھ ہی ملکی معیشت بھی مضبوط ہو گی۔ سرمایہ کار جس سیکٹر میں ٹیکس ریٹ اور لاگت کم دیکھے گا تو وہ اسی میں سرمایہ کاری کرے گا۔ جب سرمایہ کاری ہو گی تو لوگوں کو فائدہ ہو گا اور ریونیو بھی بڑھے گا۔ حکومت کی سخت معاشی پالیسیوں کی وجہ سے لوگ اس سے ناراض ہیں اور نان ریذیڈنٹ بنتے جا رہے ہیں۔ اس وقت کسی کو ملک و قوم کی پروا ہی نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ملک سے لوگ اور سرمایہ باہر جا رہا ہے۔
عبدالقادر میمن: حکومت نے یہ مفروضہ قائم کر لیا ہے کہ اگر ہم ٹیکس ریٹ کم کریں گے تو ہمارے ریونیوز کم ہو جائیں گے۔ ایسا نہیں ہوتا۔ دوسری جنگ عظیم میں جرمنی نے سب سے پہلے اپنا ٹیکس ریٹ کم کیا اور اس نے پھر شاندار معاشی ترقی کی۔ سپر ٹیکس کا پس منظر یہ ہے کہ لسٹڈ کمپنیز کی ایک فہرست بنائی گئی۔ اس میں یہ دیکھا گیا کہ کون سی کمپنی نے کتنا پرافٹ کمایا اور اگر ان پر سپر ٹیکس لگا دیں تو ہمارا ریونیو کیا ہو گا۔ جب پوری دنیا کساد بازاری سے متاثر ہوئی اور ملائیشیا نہیں ہوا تو کسی نے مہاتیر محمد سے اس کی بنیادی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا کہ ہمارا ٹیکس ریٹ 35فیصد ہے اور ہر کمپنی میں ہمارا 35فیصد شیئر ہے۔
ہم کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ وہ زیادہ سے زیادہ ریونیو کمائیں۔ اس سے ملک کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ہمیں یہ مفروضہ ختم کرنا ہو گا اور یہ سلسلہ بھی ختم کرنا ہو گا کہ جو زیادہ پرافٹ کما رہا ہے، اس سے زیادہ ٹیکس وصول کیا جائے۔ ہمیں زیادہ منافع کمانے کے لیے کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے۔ ہماری یہ روایت بن چکی ہے کہ ہم اپنے موجودہ ٹیکس پیئر کو زیادہ سے زیادہ تکلیف دیتے ہیں حالاں کہ ہمیں انہیں زیادہ سہولتیں دینی چاہئیں۔ ہمیں ایسے اقدامات کرنے چاہئیں کہ لوگ ٹیکس چوری نہ کر سکیں۔ اس کے علاوہ انٹرسٹ ریٹ کو کم کیا جائے۔ اس وقت ڈسکوز کے لائن لاسز 80فیصد ہیں۔ ہم ان کی نجکاری کیوں نہیں کر رہے۔
ذیشان: آئی ٹی سیکٹر کو پہلے ہم نے ٹیکس فری رکھا۔ پھر ہم نے انہیں سیلز ٹیکس میں رجسٹرڈ ہونے کے لیے کہا۔ اب ہم نے اسے زیرو ریٹ کر دیا اور سپر ٹیکس بھی لگا دیا۔ آئی ٹی سیکٹر میں بہت زیادہ پوٹینشل ہے اور یہ پاکستان کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بن سکتا ہے۔ بھارت 123بلین ڈالرز کما رہا ہے اور ہم دو بلین ڈالرز کما رہے ہیں۔ ہم اس سے کئی گنا زیادہ کما سکتے ہیں۔
عارف حبیب: آپ درست کہہ رہے ہیں۔ دوسرے ممالک نے بہت کام کیا ہے اس حوالے سے جب کہ ہم صرف باتیں ہی کرتے ہیں۔ اس وقت سب سے بڑا مسئلہ ملک سے سرمائے کی منتقلی بھی ہے۔ رشوت کے پیسے ڈالرز کی شکل میں باہر چلے جاتے ہیں۔ میں نے پالیسی سازوں سے کہا ہے کہ رشوت کے پیسے کو بھی ملک سے باہر نہ جانے دیا جائے۔ اگر یہ رقم ملک میں موجود ہو گی تو اس کا کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہو گا۔
دوسرا ہم کیش کے پیچھے لٹھ لے کر پڑ جاتے ہیں۔ اگر پاکستانی کرنسی ڈالر میں تبدیل ہو رہی ہے تو یہ اچھی بات ہے اور اگر کوئی اپنے پاس پاکستانی کرنسی رکھتا ہے تو اس پر کوئی قدغن نہیں لگانی چاہیے۔ پچھلے دنوں ڈی مونیٹائزیشن کی بات ہوئی تو میں نے کہا کہ اس سے مزید مسائل پیدا ہوں گے۔ ورنہ لوگ پیسے خرچ کرنے کے لیے بیرون ملک چلے جاتے ہیں۔ انہیں یہاں پیسہ خرچ کرنے کی اجازت دی جائے تاکہ ملک کا فائدہ ہو۔
حنیف ادریس: ہم اپنی جی ڈی پی کا موازنہ دوسرے ممالک سے کرتے ہیں لیکن ہم اپنی اصل جی ڈی پی کو نہیں دیکھتے بلکہ ڈاکیومینٹڈ جی ڈی پی سے موازنہ کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمارے ملک میں ٹیکس کے نظام کو بہت پیچیدہ بنا دیا گیا ہے اور اسے سادہ نہیں کیا جا سکتا اور کیا سب کے لیے یکساں ٹیکس نظام نہیں بنایا جا سکتا؟
عبدالقادر میمن: یہ ٹیکس کا نظام 1860ء میں بنایا گیا تھا جو آج بھی چل رہا ہے۔ آپ نے بالکل درست کہا کہ اسے آسان ہونا چاہیے۔ ہمیں اتنا ٹیکس لینا چاہیے جتنی ہمیں ضرورت ہے اور ایسا ٹیکس لیا جائے کہ جو قابل فہم ہو۔ ایسا ٹیکس لینے والے ممالک نے ترقی بھی کی ہے۔ سنگل اسٹیج ریٹ آف ٹیکس کے بار میں ورلڈ بینک میں پریزنٹیشن بھی دی گئی لیکن انہوں نے منع کر دیا۔ ہمیں بیرونی ڈونر اداروں سے نجات حاصل کرنا ہو گی اور اپنے وسائل کو بڑھانا ہو گا اور ہمارے ملک میں کافی پوٹینشل ہے اور ہم ایسا کر بھی سکتے ہیں۔
عارف حبیب: مجھے ابھی یہ سمجھنا ہے کہ جی ڈی پی میں ان ڈاکیومینٹڈ اکانومی بھی شامل ہوتی ہے یا نہیں۔ ان ڈاکیومینٹڈ عموماً اس اکانومی کو کہا جاتا ہے کہ جو ٹیکس ڈکلیئر نہیں کرتی۔ یہ بات بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اگر ان ڈاکیومینٹڈ اکانومی جی ڈی پی میں شامل نہیں ہے تو اسے کیسے شامل کیا جا سکتا ہے۔
سید شاہد وقار: کیا تنخواہ دار طبقے پر ٹیکس ختم نہیں کیا جا سکتا؟
عبدالقادر میمن: ٹیکس تو سب کے لیے ہونا چاہیے۔ جہاں آمدنی ہوتی ہے تو وہاں ٹیکس بھی ہوتا ہے۔ البتہ اس کی حدود ہونی چاہئیں۔
عارف حبیب: مہنگائی میں اضافے کے بعد اب ٹیکس سے استثنیٰ کی حد کو بڑھانا چاہیے۔
منصور حسن: بزنس کلاس کے لیے ٹیکس کے چھوٹ کی حد4 لاکھ جب کہ تنخواہ دار طبقے کے لیے 6 لاکھ ہے تو یہ فرق کیوں ہے؟
عارف حبیب: اگر ٹیکس کی چھوٹ کی حد 6 سے 12 لاکھ بھی کر دی جائے تو کتنا ریونیو کم ہو جائے گا۔ اس حوالے سے ہم پالیسی سازوں سے بات کریں گے کہ مہنگائی کے بعد ٹیکس چھوٹ کی حد میں اضافہ کیا جائے۔
خالد محمود: اطلاعات ہیں کہ پاکستان ایران سمیت دیگر مشرق وسطیٗ کے ممالک سے معاہدے کرنے جا رہا ہے۔ اسی کے ساتھ ہی یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ اگر پاکستان ایران کے ساتھ سوئی گیس کی پائپ لائن تعمیر نہیں کرتا تو 18بلین کا اسٹریٹ برنگ ہو گا تو کیا نئے ایم او یوز کائونٹر پروڈکٹیو تو نہیں ہوں گے تو اس پر تھوڑی سی روشنی ڈالیے۔
عارف حبیب: بدقسمتی سے پاکستان کی پڑوسی ممالک سے تجارت نہ ہونے کے برابر ہے۔ اگر پاکستان کے پڑوسی ممالک کے ساتھ ایم او یوز ہیں تو ان پر کام کرنا چاہیے۔ اگر ایران سے معاہدے میں پابندیاں آڑے آ رہی ہیں تو یہ ہماری سیاسی لیڈرشپ کی کمزوری ہے۔ بھارت تو ایران اور روس دونوں سے تجارت کر رہا ہے۔ ہمیں دوسروں کے تنازعات میں نہیں پڑھنا چاہیے اور اپنی معیشت پر توجہ دینی چاہیے۔
احسن صابر: دنیا بھر میں تھنک ٹینکس حکومتی پالیسیوں ک نفاذ میں مدد دیتے ہیں جب کہ پاکستان میں تھنک ٹینکس نہیں ہیں۔ پھر ہمارے ہاں کرپٹو کرنسی کی حوصلہ شکنی کیوں کی جا رہی ہے؟
عبدالقادر میمن: کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے اعتبار سے پاکستانی عوام دنیا میں تیسرے نمبر پر ہیں۔ ایف پی سی سی آئی نے اس پر کام بھی کیا ہے اور اگر حکومت اس کی اجازت دے دے تو حکومت کو کھربوں کا ریونیو مل سکتا ہے لیکن ہمارے کتابچے کو ایک طرف رکھ دیا گیا اور کہا گیا کہ ہمارے ہاں کرپٹو کرنسی قانونی نہیں ہو سکتی۔ دراصل یہ ہماری اپنی کمزوریاں ہیں۔
حفیظ شاہ رخ: نت نئے ٹیکسز لگا کر اور بے جا پابندیاں عائد کر کے پاکستان کو نئے سرمایہ کاروں کے لیے اتنا خطرناک ملک کیوں بنا دیا گیا ہے کہ وہ بیرون ملک سرمایہ کاری پر مجبور ہیں؟
عبدالقادر میمن: اگر سرمایہ کاری کرنے والوں معلوم ہو کہ ٹیکس پالیسی ہر سال تبدیل نہیں ہو گی تو وہ سرمایہ کاری کرے گا اور اگر اسے پتہ ہو گا کہ حکومت اس سے خوش ہو گی تو اس کی حوصلہ افزائی ہو گی۔ اس سلسلے میں ہمیں بنیادی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پاکستان کے اندر موجود سرمایہ دار کے پاس اتنا پیسہ ہے کہ آپ یقین نہیں کر سکتے۔ اگر حکومت ان سے کہیں کہ آپ آئیں اور پیسہ لگائیں اور ہم آپ سے کچھ نہیں پوچھیں گے تو وہ ضرور پیسہ لگائے گا۔
زاہد فاروق: اس شہر کے وسائل پر لینڈ گریبر اور پانی فروخت کرنے والوں کا قبضہ ہے۔ ان وسائل سے حکومت کیسے فائدہ اٹھا سکتی ہے؟
عارف حبیب: ان باتوں کا تعلق ٹیکس پالیسی سے نہیں بلکہ حکومت کے نظم و نسق سے ہے۔ یہ ہماری سیاسی لیڈر شپ کی کمزوریاں ہیں۔ اس پر ہمیں بھی تحفظات ہیں۔ اگر یہ وسائل حکومت کے پاس آ جائیں تو پاکستان کو بھر کسی چیز کی ضرورت نہیں رہے گی۔ریحان جعفری: کافی عرصے سے نان فائلر فائلر بنانے کی کوشش کی جا رہی ہے تو یہ کب ممکن ہو گا اور پھر ایف بی آر کوئی طویل المدت ٹیکس پالیسی کیوں نہیں بناتا؟
عبدالقادر میمن: ان سب کا دارومدار آٹومیشن پر ہے۔ اس سلسلے میں ہمیں سافٹ ویئر اور ہارڈ ویئر کے لیے ہمیں بیرونی امداد بھی ملی تھی لیکن ہم نے اسے دفاتر بنانے اور دوسرے کاموں پر خرچ کر دیا۔ اگر ہماری آٹومیشن اچھی ہو گی اور ہمارے پاس معلومات ہوں گی تو چیزیں بہتر ہو جائیں گی۔
سعید غنی: کیا موجودہ سیاسی صورتحال میں ان تجاویز پر عمل کیا جا سکتا ہے؟
عارف حبیب : حکومت کی نا اہلی کی وجہ سے ملک میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ اس کے علاوہ سیاسی صورتحال کی وجہ سے بھی سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ اس کے علاوہ روپے کی قدر بھی دن بدن کم ہو رہی ہے اور ان حالات میں کوئی بہتری واقع نہیں ہو رہی۔ اس سے پہلے بھی حالات خراب ہوتے رہے ہیں لیکن اس مرتبہ حالات اس قدر خراب ہیں کہ لوگ مایوس ہو چکے ہیں۔ ہم صرف دعا ہی کر سکتے ہیں۔