• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

جنگلات میں آتش زدگی کی وجوہ، اثرات اور قابو پانے کے اقدامات

جنگلات میں آتش زدگی کے واقعات سوائے براعظم انٹارکٹیکا کے، ہر برّاعظم میں ہوتے ہیں۔ ارضی اور انسانی تاریخ سے ثابت ہے کہ زمانۂ قدیم سے یہ واقعات رُونما ہورہے ہیں اور جنگل میں برپا ہونے والی آگ وسیع پیمانے پر نقصان کا باعث بنتی ہے، جس میں املاک، ماحول اور انسانی جانوں کا نقصان شامل ہیں۔ ویسے گھنے جنگلات میں لگنے والی آگ کے کچھ فوائد بھی مشاہدے میں آئے ہیں۔ 

مثلاً کئی ایسے پودے دریافت ہوئے، جو آگ کی گرمی اور اس سے پیدا ہونے والی راکھ کی بنیاد ہی پر بڑھوتری کا عمل کرتے ہیں۔ تاہم عمومی طور پر جنگلات میں لگنے والی آگ کو ماحولیات کے لیے بہت بڑا خطرہ ہی گردانا جاتا ہے کہ یہ تیکنیکی لحاظ سے اپنی رفتار اور اس کے نتیجے میں برپا ہونے والے اثرات کی وجہ سے آگ کی دوسری اقسام سے مختلف ہوتی ہے۔

یہ غیر متوقع طور پر اپنی سمت تبدیل کرتی ہے اور سطح پر موجود سڑک، ندی دریا، نہر یا کسی بھی حفاظتی دیوار کو اپنی رفتار اور شدّت کے باعث عبور کرلیتی ہے۔ جنگلات میں لگنے والی یہ آگ انسانی غفلت اور لاپروائی ہی کا نتیجہ ہے، کیوں کہ انسانی آبادیوں کا پھیلائو بتدریج بڑھتا جارہا ہے اور لوگ نہ صرف جنگلات کے آس پاس بلکہ اُن کے اندر بھی رہنے پر مجبور ہیں اور جنگلات میں انسانی آبادیوں کی اس بے جا مداخلت ہی کے سبب آتش زدگی کے واقعات میں اضافہ ہوتا جارہا ہے۔

کسی جنگل یاچراگاہ میں آگ لگنے کی وجوہ عموماً دو طرح کی ہوتی ہیں۔ اوّل، کسی شخص کا اپنے مقاصد کے لیے دانستہ آگ بھڑکانا۔ دوم، یہ عمل غیرارادی ہو۔ ارادی طور پر عموماً لوگ جنگل سے جھاڑ جھنکاڑ کے خاتمے، گھنے درختوں پر لگے شہد کی مکّھیوں کے چھتّوں سے خالص شہد کے حصول یا جانوروں کے غیرقانونی شکار کے لیے آگ بھڑکاتے ہیں، جب کہ بعض اوقات کچھ افراد زرعی مقاصد کے حصول کے لیے بھی آگ لگا کر جنگل کی زمین صاف کرتے ہیں۔ نیز، مال مویشیوں کے لیے چارہ حاصل کرنے، جنگلی جڑی بوٹیوں، حشرات الارض کے خاتمے، جنگلی درندے مار بھگانے اورجرائم پیشہ افراد کی کمیں گاہیں ختم کرنے کے لیے بھی جنگلات میں آگ لگائی جاتی ہے۔

جب کہ غیر ارادی طور پر آگ لگنے کی وجوہ میں کسی کا وہاں سےگزرتے ہوئے جلتی سگریٹ یا جلتی ماچس پھینک دینا، بچّوں کا کھیل کود میں آگ لگانے کا تجربہ کرنا یا ریل گاڑی کے انجن سے نکلنے والی چنگاریوں کا اُڑ کر جنگل میں پہنچ جانا وغیرہ شامل ہیں۔ اسی طرح چرواہوں کا آگ لگاکر بُجھائے بغیر چھوڑ دینا یا بعض اوقات سماجی و ثقافتی تقریبات میں کی جانے والی آتش بازی بھی آگ کے شعلے بھڑکانے کا سبب بن جاتی ہے۔ 

پھر جنگل میں لگنے والی یہ آگ دیکھتے ہی دیکھتے نہ صرف قیمتی درختوں، جڑی بوٹیوں کا خاتمہ کردیتی ہے، بلکہ ماحول اور قدرتی وسائل کی بھی تباہی و بربادی کا سبب بنتی ہے۔ اس آگ سے زمین کی زمین کی حفاظت کرنے، اُسے بردگی سے بچانے والے چھوٹے پودے، جھاڑیاں ہی جل کر راکھ نہیں ہوتے، زمین بھی بنجر ہوجاتی ہے۔ جانوروں، پرندوں کے مساکن تباہ ہوجاتے ہیں۔ ان کے انڈے، بچّے جل کر راکھ ہوجاتے ہیں۔ نیز، پیڑ پودوں کا وجود ختم ہوجانے سے بارش کاپانی زمین میں جذب نہیں ہوپاتا، تو زیرِزمین پانی کی مقدار بھی کم ہوجاتی ہے۔

جنگلات کی ماحولیاتی اہمیت سے انکار ممکن نہیں۔ ان کا حیواناتی زندگی کے ساتھ اہم ربط ہے، مگر پھر بھی دنیا بھر میں جنگلات کے کٹاؤ کا عمل جاری ہے کہ بڑھتی ہوئی انسانی آبادی کی ضروریات کی تکمیل کے لیے جنگلات کو بے دریغ کاٹا جارہا ہے۔ جس سے نہ صرف ماحول بلکہ جانوروں کے حیاتیاتی تنوّع پر بھی بہت بُرے اثرات مرتّب ہو رہے ہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان کے مختلف صوبوں میں موجود جنگلات کو جہاں مختلف عوامل سے نقصان پہنچایا جارہا ہے، وہیں ان میں آتش زدگی کے واقعات میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ 

گزشتہ برس کے اواخر میں ملک کے مختلف جنگلات میں لگنے والی آگ جہاں جنگلی حیات کے لیے جان لیوا ثابت ہوئی، وہیں اس کے نتیجے میں ماحولیات پر بھی کافی منفی اثرات مرتّب ہوئے۔ دراصل جنگلات یا پہاڑی علاقوں میں لگنے والی آگ بے قابو ہوتی ہے، جو ایک دَم تیزی سے پھیلتی ہے۔ حتیٰ کہ محفوظ مقامات کو بھی لمحوں میں اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے۔ بعض اوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ کسی مقام سے بجھانے کے تھوڑی دیر بعد وہ اُسی مقام پر دوبارہ بھڑک اٹھتی ہے اور جنگل کی آگ بجھانا کوئی آسان کام بھی نہیں۔ 

اس کے لیے باقاعدہ تربیت یافتہ افراد کی ضرورت ہوتی ہے۔ تاہم، آگ لگنے کی صورت میں فوری طور پر پانی اور مٹّی ڈالنے کے ساتھ اسے مارمار کربھی بجھانے کی کوشش کی جانی چاہیے، جب کہ وسیع رقبے پر پھیلنے والی شدید نوعیت کی آگ فضا سے بجھائی جاتی ہے۔ اگرچہ اس آگ کو بجھانے کے لیے پانی کااستعمال مؤثرترین طریقہ ہے، لیکن چوں کہ زیادہ تر جنگلات میں پانی میسّر نہیں ہوتا، تو وہ ٹینکرز یا دیگر ذرائع سے پہنچانا پڑتا ہے، پھر اس ضمن میں مٹّی کا استعمال بھی سود مند ہے اور مٹّی ہر جگہ وافر دست یاب بھی ہوتی ہے، اس لیے فوری طور پر زمین کھود کر اس میں سے نکلنے والی مٹّی آگ پر پھینکنی چاہیے۔ 

مٹّی آکسیجن کی سپلائی بند کردیتی ہے اور جلے ہوئے مواد کا درجۂ حرارت بھی کم کرتی ہے، جب کہ خشک مٹّی کی نسبت نم مٹّی زیادہ موزوں رہتی ہے۔ فضا سے آگ بجھانے کے عمل میں چھوٹے طیارے اورہیلی کاپٹرز استعمال کیے جاتے ہیں اور اگر اس عمل میں ہیلی کاپٹر یا طیارے زمینی عملے کے ساتھ مل کر فوری اور بروقت حصّہ لیں، تو بڑے پیمانے پر آگ پھیلنے سے قبل اس پر موثر طور پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ پھر آگ بجھانے کے اقدامات میں آگ کے مقابل آگ جلانا بھی ایک اہم طریقہ ہے، اس کابنیادی مقصد یہ ہوتا ہے کہ وہاں تک آگ پہنچنے سے پہلے اس کے راستے میں ایک مناسب چوڑائی کا علاقہ جلا کر آتش گیر مادّے سے صاف کرلیا جائے، تاکہ آگ جب اس جلے ہوئے مقام تک پہنچے تو آتش گیر مادّہ نہ ہونے کی وجہ سے خود بخود ختم ہوجائے۔ 

تاہم، اس ضمن میں اس بات کا خیال رکھنا لازم ہوتا ہے کہ آگ کے مقابل آگ لگانے کا عمل صرف ذمّے دار عملے کی موجودگی اور احکامات کے تحت کسی مخصوص سڑک، چوٹی یافائر لائن سے شروع کیاجائے، تاکہ آگ پہنچنے سے پہلے تمام آتش گیر مادّہ جل جائے۔ آگ بجھانے والا عملہ اُس علاقے میں جہاں آگ پھیلنے کا اندیشہ ہو، بجھانے کے لیے آتش گیر مادے سے صاف فائرلائن بناکر آگ کو محدود کرتا ہے اور پھر یہ جلائی ہوئی آگ یا تو بجھادی جاتی ہے یا پھر اس کا رُخ اس طرح متعین کیاجاتاہے کہ وہ آنے والی آگ سے ٹکرا جائے اور اسے روک لے۔ (مضمون نگار، بطور ڈپٹی ڈائریکٹر، وائلڈ لائف ، لاہور خدمات انجام دے رہے ہیں)