• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ججز کے کیسز جوڈیشل کونسل میں ضرور چلیں لیکن کرپشن کا عنصر آیا تو نیب حرکت میں آسکتا ہے، معاون خصوصی عرفان قادر

اسلام آباد (این این آئی)وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے قانونی اصلاحات و احتساب عرفان قادر نے کہاہے کہ اعلیٰ عدلیہ بھی نیب قانون کے دائرہ کار میں آتی ہے، مقدس گائے کوئی نہیں ہے، جج صاحبان کے کیسز جوڈیشل کونسل میں ضرور چلیں گے ،جہاں کرپشن کا عنصر ملے گا اور کرپشن کے فوجداری قوانین لاگو ہوسکتے ہوں گے وہاں ججز کا بھی ٹرائل کیا جاسکتا ہے، آڈیو لیکس سے ایسے شواہد ملے جن میں کرپشن کا بھی عنصر ملتا ہے، حکومت نے بہت احتیاط سے کام لیا، انہی کے برادر ججز کا کمیشن بنایا، کمیشن کے سامنے بے گناہی ثابت کرسکتے تھے، اپنی مرضی کا بنچ بنا کر کمیشن کی کارروائی کو روک دیا، اس تناظر میں پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ بنایا گیا جس کا مقصد تھا چیف جسٹس پر کوئی انگلی نہ اٹھائے، انہوں نے اپنی مرضی کا ایک اور بنچ بنالیا، اب عدلیہ نے ریویو ایکٹ اور پنجاب انتخابات کیس کی سماعت کو اکٹھا کرنے کی کوشش کی ہے، پارلیمنٹ کے قانون نہیں مان رہے اور اپنی مرضی سے الیکشن کرانے کی بھی کوشش کی ہے، ان سب چیزوں پر ہمیں اعتراضات ہیں، القادر ٹرسٹ کیس میں بھی کچھ شواہد سامنے آئے ہیں، سابق وزیرِاعظم کے اہل خانہ کو ملنے والے مزید تحائف کی تفصیلات سامنے آئی ہیں، سابق وزیراعظم کی اہلیہ کی دوست فرح گوگی اور ان کے شوہر کو واپس لانے کی کوشش کی جارہی ہے ،عدلیہ سے کوئی ڈیل نہیں ہورہی اور ہونی بھی نہیں چاہئے، مریم نواز کے خلاف جو کیس تھا وہ کلیئر ہوگیا، یہی کیس نواز شریف کا بھی ہے،کرپشن کے خاتمے تک ملک ترقی نہیں کر سکتا، جب تک احتساب نہیں ہو گا کرپشن ختم نہیں ہو گی۔ وہ پریس کانفرنس سے خطاب کررہے تھے، عرفان قادر نے مزید کہا کہ نیب آرڈیننس1999 کا مقصد ملک سے لوٹی ہوئی دولت واپس لانا ہے، سیاستدانوں اور بیوروکریٹس کا احتساب تو ہوتا رہتا ہے لیکن سب کا بلا امتیاز احتساب ہونا چاہئے۔ معاون خصوصی نے کہا کہ پبلک آفس ہولڈر کی تعریف میں فوجی افسران کو شامل نہیں کیا گیا ہے، حاضر سروس جرنیلوں کیلئے فوج کے اپنے قوانین ہیں، جو بہت سخت ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سپیریئر کورٹ ججز کے بارے میں کنفیوژن پیدا کردیا گیا تھا کہ ان کے معاملے سپریم جوڈیشل کونسل میں جائیں گے، میں یہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ جہاں کرپشن کا عنصر ملے گا اور کرپشن کے فوجداری قوانین لاگو ہوسکتے ہیں وہاں ان کا بھی ٹرائل کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ چند برسوں میں دیکھا گیا کہ وزرائے اعظم کو نااہل کیا گیا اور پھر عدالت عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ ان کے کیسز نیب میں جائیں، بیوروکریٹس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہوتی ہے اور سیاستدانوں کی نااہلی ہوتی ہے اس کے باوجود عدلیہ نے کہا کہ ان کے کیسز نیب میں بھی چلیں، لہذا جج صاحبان کے کیسز جوڈیشل کونسل میں ضرور چلیں گے تاہم اگر ان میں کرپشن کا عنصر پایا جاتا ہے تو نیب بھی ان کیسز کو دیکھ سکتا ہے، مقدس گائے کوئی نہیں ہے، اعلیٰ عدلیہ بھی نیب قانون کے دئرہ کار میں آتی ہے۔ عرفان قادر نے کہا کہ حال ہی میں کچھ جج صاحبان کی آڈیو لیکس سامنے آئی ہیں جن کی تحقیقات کیلئے کمیشن بنانا پڑے، ان آڈیوز سے ایسے شواہد ملے جن میں کرپشن کا عنصر نظر آتا ہے لہٰذا حکومت نے جج صاحبان پر ہی مشتمل ایک کمیشن بنایا، یہ کمیشن جج صاحبان کے لئے ایک اچھی سہولت تھی لیکن انہوں نے خود ہی اس کی کارروائی کو روک دیا۔

اہم خبریں سے مزید