• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محمد حسین مشاہدرضوی

بچوں کا کھیلنے میں ذرا بھی دل نہیں لگ رہا تھا۔ فیضان ان کے گروپ کا سب سے خاص ممبر تھا۔ وہ پچھلے کئی ہفتے سے کھیلنے نہیں آ رہا تھا ۔ آج بھی وہ نہیں آیا تو بچے دکھی ہو کر گھاس پر بیٹھ گئے۔

نہال نے کہا ،’’ مجھے نہیں لگتا کہ فیضان اب کبھی ہمارے ساتھ کھیلنے کے لیے آئے گا، کرمو کاکا بتا رہے تھے کہ اس کے پاپا کا پروموشن ہوگیا ہے ، وہ ایک بڑے آفیسر بن گئے ہیں بھلا وہ اب ہمارے ساتھ کھیلنے کیوں آئے گا؟‘‘

’’لیکن اس سے اس کا کیا لینا دینا؟‘‘اسلم نے پوچھا۔

اس پر فائق نے کہا:’’ لینا دینا کیوں نہیں ہے؟ فیضان کے پاپا نے ایک کار خرید لی ہے ۔ وہ اب اچھے اچھے کپڑے پہنتا ہے۔ یہاں ہمارے ساتھ کھیلنے سے اس کے کپڑے میلے ہوجائیں گے۔ بھلاوہ کیوں آنے لگا؟‘‘

ببلو بڑی دیر سے گھاس نوچ رہا تھا ۔ اس نے اپنی خاموشی توڑی اور کہا،’’ یہ سب ٹھیک ہے لیکن گھر میں وہ کس کے ساتھ کھیلتا ہوگا ؟‘‘

’’ اس کے لیے ایک اچھی سی گیند آگئی ہے ، اس کے پاس کمپیوٹر بھی ہے وہ طرح طرح کے کمپیوٹر گیم کھیلتا ہے ۔ اور ہاں! اس کے پاس ڈھیر ساری کہانیوں کی کتابیں بھی ہیں ،اتنا سب کچھ رہتے ہوئے، اسے یہاں آنے کی ضرورت ہی کیا ہےکیوں نہ ہم خود کسی دن اس کے گھر چلیں ؟‘‘وامق نے ببلوکی بات کا جواب دیا۔

ہاں ہاں! یہ ٹھیک رہے گا۔‘‘وامق کی بات پر سب نے اتفاق کیا۔

دوسرے دن موقع پاکر وہ سب فیضان کے گھر جاپہنچے۔ اس وقت وہ گھر میں اکیلا ہی تھا ۔کرمو کاکا باہر پھولوں کو پانی دے رہے تھے ۔ اپنے دوستوں کو دیکھ کرفیضان پھولا نہ سمایا۔ لیکن اگلے ہی پل وہ اداسی سے کہنے لگا،’’ مَیں روزانہ تم سب کے ساتھ کھیلنے آنا چاہتا ہوں لیکن میرے ممی پاپانے مجھے اس کے لیے منع کردیا ہے، انھیں پارٹیوں میں جانے سے فرصت نہیں ہے اورمَیں یہاں اکیلا پڑا بور ہوتا رہتاہوں ۔ پلیز! تم سب میرے لیے کچھ کرو۔‘‘یہ کہتے کہتے فیضان کی آنکھیں بھر آئیں اور وہ رونے لگا۔

فیضان کی بات سن کر بچوں کا شک و شبہ دور ہوگیا۔ وہ سب سوچنے لگے کہ اب کیا کرنا چاہیے؟نہال کے دماغ میں ایک ترکیب سوجھی۔ جب اس نے اپنی راے ظاہر کی تو سب خوش ہوگئے، پھر سب بچوں نے مل کر اس پر مشورہ کیا اور فیضان کوخدا حافظ کہتے ہوئے لوٹ گئے۔ دوسرے دن فیضان نے دیکھا کہ اس کے ممی پاپا کہیں جانے کے لیے تیار ہو رہے تھے اس نے ممی سے پوچھا،’’ آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں؟‘‘

’’ایک پارٹی میں جارہے ہیں بیٹا! تم اپنا خیال رکھنا اور باہر نہیں جانا چپ چاپ گھر میں ہی کھیلنا اور ہاں! کرمو کاکا کو تنگ مت کرنا۔‘‘ ممی کہا۔

فیضان نےپوچھا،’’ کیا پارٹی میں جانا ضروری ہے؟‘‘

یہ سُن کر اس کے پاپا نے جواب دیا :’’ ہاں بیٹے، اس میں ہمارے سارے دوست آرہے ہیں ہمیں سب کے ساتھ ملنا جلنا ہے ، اس لیے ہمارا جانا ضروری ہے۔‘‘

’’ پاپا آپ دونوں یہاں گھر میں ہی پارٹی کیوں نہیں کرلیتے ؟ وہاں جانے کیا کیا ضرورت ؟‘‘ فیضان نے کہا

یہ سُن کر اس کے پاپا کو بڑی حیرانی ہوئی۔ انھوں نے اسےپیارکرتے ہوئے کہا،’’ بھلا ہم گھر میں اکیلے پارٹی کیسے کرسکتے ہیں ؟اس کے لیے ہمارے سب ہی دوستوں کا ہونا ضروری ہے، اس لیے تو ہم وہاں جارہے ہیں ۔‘‘

موقع پاتے ہی فیضان نے اپنی بات کہہ دی،’’ پاپا! جب آپ دونوں گھر میں اکیلے پارٹی نہیں کرسکتے تو میں بھلا یہاں اکیلا کیسے کھیل سکتا ہوں؟ میرے بھی تو دوست ہیں جن سے مَیں ملنا چاہتا ہوں ان کے ساتھ کھیلنا چاہتا ہوں اور خوب ساری باتیں کرنا چاہتا ہوں ۔ لیکن آپ تو مجھے باہر نکلنے ہی نہیں دیتے ۔ مَیں گھر میں بند ہوکر نہیں رہنا چاہتا۔‘‘اتنا کہتے کہتے فیضان کا گلا رندھ گیا اور وہ رونے لگا۔ اس کے ممی پاپا کو اپنی غلطی کا احساس ہوا۔اس کی ممی اس کے پاس آئیں اوراس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولیں،’’ہم سے بڑی بھول ہوگئی بیٹا! آج سے تم روز اپنے دوستوں کے ساتھ کھیلو گے ۔‘‘

تب ہی کرمو کاکا نے آکر کہا،’’ فیضان بیٹا، آپ کے دوست باہر کھڑے آپ کا انتظار کررہے ہیں ۔‘‘

اتنا سُن کر وہ باہر کی طرف دوڑ ا ۔ بچے دوہری خوشی کے ساتھ کھیل رہے تھے کیوں کہ آج ان کے گروپ کا خاص ممبر ان کے ساتھ کھیل رہا تھا۔