• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آبیہ علی کی اپنے باپ کے بارے میں خصوصی تحریر

میرے پیارے والد ظفر محی الدین چند دن قبل 13جون کو ہم سب کو چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوگئے۔ وہ جنگ میں عالمی منظر نامہ، ماحولیات، کے علاوہ مختلف موضوعات پر بہت شوق سے لکھتے تھے۔ انتقال سے چند قبل بھی ایک مضمون لکھ کر جنگ میگزین کو بھیجا تھا۔ انہیں جنگ سے عشق تھا۔ ابو جان کو یاد کرنے پر دل بھاری ضرور ہورہا ہے، لیکن جانا تو سب کو ہے، اہم بات یہ ہے کہ جانے والا اپنے پیچھے کیا چھوڑ کر گیا ہے۔ لوگ اسے کس طرح یاد رکھتے ہیں۔

میرے ہی نہیں ان کے ارد گرد رہنے والے، دوست احباب، ان کو چاہنے والے سب ہی غمزدہ تو ہیں لیکن یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ ایک محبت کرنے والا باپ، دوست، ہمدرد انسان ایک شاندار، باعث افتخار زندگی جی کر رخصت ہوا ہے۔ ان کی بچوں سے بے پناہ محبت نے ہم سب کو ایک ایسے جذبے سے مالا مال کیا جو لفظوں میں بیان کرنا مشکل ہے۔ اُنہوں نے ہمیں آگے بڑھنے کے لئے مستعد کیا۔

ہمارے والد کی زندگی معنی خیز تھی۔ وہ نہ صرف اپنی محبت بڑھانے میں ماہر تھے بلکہ اپنے قلم کے ذریعے عوام کو بھی اس میں شامل کرلیتے تھے۔ ان کے تحریر کردہ مضامین نے اندیشوں کو دور کیا اور لوگوں کو بتایا کہ کیسے خوشیوں اور مشکل وقت میں جیا جا سکتا ہے۔ ابو نے اپنے علمی دروازے کو ہر وقت کھلا رکھا۔ ان کی چھ کتابیں شائع ہوئیں، ایک کتاب پر وہ اپنے آخری وقت تک کم کر رہے تھے۔ بستر پر بھی انہوں نے اپنے لکھنے کے جذبے کو نہیں چھوڑا ، آخری وقت تک لوگوں کو علم بانٹنے کی کوشش کی۔ علم و فہم بڑھایا۔ابو کا قلم ایک روشنی تھا جو ہم سب کو روشن کرتا رہا۔ 

ان کی ادبی میراث، محبت، اور ہنسنے کا انداز ہمارے دلوں میں ہمیشہ بسا رہے گا اور ان کا ادبی ورثہ یاد رکھا جائے گا۔ ابھی ابو کی قبر کی مٹی گیلی ہے، گھر کےکونے کونے سے ان کی آواز گونجتی محسوس ہو رہی ہے، مگر وہ خود نظر نہیں آرہے۔ اب ان کی یادوں میں ہی زندگی بسر کریں گے۔ آپ اپنے ابدی گھر میں بھی خوش ہو گے ، جہاں ایک دن ہم آپ سے ملاقات کریں گے۔

’’انا للِه و انا اليهِ راجعون‘‘