اپنی ذمہ داریوں کو احسن طر یقے سے نبھایا، ڈاکٹر سروش حشمت لودھی
این ای ڈی یونیورسٹی کے وائس چانسلر، ڈاکٹر سروش لودھی کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ بچّوں کی تر بیت کے حوالے سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ، ’’ تربیت میں جتنا عمل دخل ایک ماں کا ہوتا ہے، اتنا باپ کا نہیں ہوتا لیکن جتنا بھی ہوتا ہے وہ بہت اہم ہوتا ہے۔ ہر باپ اپنے بچّوں کے لیے ایک رول ماڈل کی حیثیت رکھتا ہے، اس کا اٹھنا بیٹھنا ،بات کرنے کا انداز ہر چیز بچّوں پر اثرا نداز ہوتی ہے۔
میں نے ان کو ایک بات بچپن ہی میں سمجھا دی تھی کہ مجھ سے کبھی جھوٹ نہیں بولنا، خواہ بڑی سے بڑی غلطی سر زد ہوجائے۔ انہیں کبھی مغرب کے بعد گھر سے باہر رہنے کی اجازت نہیں دی، کسی کی برائی کرنے کی اجازت نہیں، انہیں پیار سے سمجھائیں کہ آئند ہ ایسا نہیں کرنا اگر وہ آپ کی بات نہیں مانتے تو پھر سختی کریں۔ میں ان کی ہرجائزخواہش پوری کرتا ہوں۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ بچّوں کو بچپن سے ہی ایماند اری کے ساتھ محنت کرنے کا عادی بنائیں۔ میں نے بچّوں کو یہ بات ذہن نشین کرادی ہے کہ ،اگر نام کمانا چاہتے ہو تو محنت کرو۔ آج انہیں دیکھ کرمطمئن ہوں کہ بہ حیثیت باپ میں نے اپنی ذمہ داریوں کو احسن طر یقے سے نبھایا۔
بچوں سے دوستی کا رشتہ ہے، سکندر بخت
سنیئر کرکٹر، سکند ر بخت چار بیٹوں اور دو بیٹیوں کے باپ ہیں ۔بچوں کی تربیت کے بارے میں ان کا کہنا ہے کہ اس میں میرا عمل دخل ہمیشہ سے بہت زیادہ ہے، ان کے ہر کام پر نظر رکھتا ہوں، ہر بچے سےدوستی کا رشتہ ہے اسی لئے وہ مجھے سے ہر بات شیئر کرتے ہیں۔ میں بھی ان سے ہر بات پوچھتا ہوں۔مجھے ان کے تمام دوستوں کا معلوم ہے۔
ان کے دلوں میں میرا احترام اور ڈر ہے۔ تعلیم کے ساتھ بڑوں کا ادب واحترام، چھوٹوں سے شفقت سے پیش آنا سب پرتوجہ دی، غرض یہ کہ بچّوں کی جو بنیادی تربیت ہوتی ہے وہ میں نے بہت طریقے سے کی۔ بچّوں کو کچھ بھی چاہیے ہوتا ہے وہ ماں سے نہیں مجھے سے کہتےہیں۔ میں نے آج تک بچوں کے سامنے کوئی غلط کام نہیں کیا، اگر آپ ان کے سامنے کچھ غلط کریں گے تو وہ بھی پھر ویسا ہی کریں گے۔ ہر ماں باپ کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے، جہاں تک ممکن ہو ان کے سامنے اچھے کام کریں ،تا کہ وہ اچھی چیزیں اپنائیں۔
بچوں سے دوستی کا رشتہ ہے، مجھے لگتا ہے کہ شاید میں ان کی اچھی تربیت کرنے میں کسی حدتک کام یاب ہوا ہوں۔ میں سمجھتا ہوں کہ بچوں کے ساتھ دوستی کا رشتہ قائم کرنا بہت ضروری ہے، ورنہ آپ ان کےدل کی بات نہیں جان سکتے، ان کو کسی کام کا منع کرنے کے لیے میرے آنکھیں ہی کافی ہوتی ہے، ہر بات پیار سے سمجھاتا ہوں ،انہیں کبھی کسی پر ہاتھ اُٹھانے کی اجازت نہیں دی، ان کو بچپن میں ہی یہ بات ذہن نشین کرا دی تھی کہ کچھ بھی ہو جائے کسی کو مارنا نہیں۔ یہاں میں ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ جہاں تک ممکن ہوسکے اپنے بچّوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں ۔ان کواپنے قریب رکھیں ،تا کہ وہ آ پ سے کوئی بھی بات نہ چھپائیں اور بچّوں کو مارے نہیں ،اس سے ان کی نفسیات خراب ہوتی ہے۔
میں نے بچوں پر کسی بھی معاملے میں سختی نہیں کی، نہ تعلیم میں اور نہ تربیت میں، قیصر نظامانی
معروف سنیئر اداکار قیصر نظامانی، دو بیٹوں کے باپ ہیں۔ بچوں کی تربیت کے حوالے سے ان کا کہنا تھا ماں، باپ دونوں ہی کرتے ہیں لیکن یہ سچ ہے کہ محبت میں لڑکوں کا رجحان ماں کی طرف زیادہ ہوتا ہے، مگر عملی زندگی میں باپ ان کی تربیت کرتا ہے۔ باپ کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اپنے بچّوں کے سامنے ایک رول ماڈل بنے، میں نے بھی یہی کوشش کی ہے ،کس حد تک کام یاب ہوا یہ مجھ سے بہتر میرے بچے بتا سکتے ہیں۔ ایک باپ کی تو خواہش یہی ہوتی ہے کہ اس کے بچے زندگی میں اس سے زیادہ کام یاب ہوں۔ میں نے دونوں بیٹوں پر کسی بھی معاملے میں سختی نہیں کی، نہ تعلیم میں اور نہ ہی تربیت میں ہر بات پیار و محبت سے سمجھائی۔ میری زیادہ تر توجہ بچّوں کی تعلیم پر مرکوز رہی۔
ایک بات ان کو چھوٹی عمر میں ہی سمجھا دی تھی کہ کبھی گاڑی تیز رفتار میں نہیں چلانا، موٹرسائیکل ہر گز چلانے کی اجازت نہیں ہے، جوان کے شوق تھے وہ پورے کرنے دیئے۔ سختی نہ کرنے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ ان کی ماں کی ان پر نظریں تھیں، ویسے بھی بچے ماں کے ساتھ زیادہ وقت گزارتے ہیں، باپ کی توجہ تو کمانے پر ہوتی ہے۔
آج دونوں بیٹے ہائی کورٹ کے وکیل ہیں۔ بچّوں کو ایک بات ہمیشہ کہتا ہوں کہ، دوست وہی ہوتے ہیں جو آپ کی موجودہ ِحالات زندگی سے پہلے کے دوست ہوں۔ بچّوں کی خواہشات بہت زیادہ پوری کیں، جس کھلونے کی فرمائش کرتے فوراً دلاتا تھا۔ آج میں مطئمن ہوں کہ میں نے بہ حیثیت والد اپنی ذمہ داریاں بہ خوبی نبھائیں ، اپناکردارادا کیا اور ابھی بھی کررہا ہوں۔باپ، بیٹے کا رشتہ بہت حسین ہوتا ہے۔