محمد صہیب فاروق
اسکولوں میں گرمیوں کی چھٹیاں شروع ہوچکی تھیں۔ عادل کے والدین ہر سال اسے ٹرین میں اس کی دادی کے پاس گرمیوں کی چھٹیاں گزارنے کے لیے لے جاتے تھے۔ دادی گاؤں میں رہتی تھیں ۔ عادل کو گاؤں کا پُر فضا ماحول، ہرے بھرے کھیت اور جانور بہت اچھے لگتے تھے۔ دادی کے پاس جانے کے لیے وہ گرمیوں کی چھٹیوں کا شدت سے انتظار کرتا تھا۔ دادی بھی اسے بہت چاہتی تھیں۔ اس کے آنے پر بہت خوش ہوتیں ۔عادل کے امی ابو اسے چھوڑ کرکچھ دن بعد واپس آجاتے تھے۔
وقت آگے بڑھتا گیا عادل نے آٹھویں جماعت پاس کرلی ،اس دفعہ جب اس کے والدین دادی کے پاس گاؤں جانے کی تیاری کر رہےتھے توعادل نے ان سے کہا،’’میں اب بڑا ہو گیا ہوں، اس سال میں دادی کے پاس اکیلاجانا چاہتا ہوں۔ آپ لوگ تو ویسے بھی چند دنوں بعد ہی واپس آجاتے ہیں، لہذا میری وجہ سے تکلیف نہ اُٹھائیں ۔‘‘
والدین نے اسے بہت سمجھایا کہ، تم ابھی اتنے بڑے نہیں ہوئے ہوکہ تمھیں اکیلا بھیج دیں لیکن وہ اپنی ضد پر اڑا رہا۔
والدین نے مختصر بحث کے بعد اتفاق کر لیا اور پھر مقررہ دن اسٹیشن کے پلیٹ فارم پرپہنچ گئے۔ والد نے جونہی اسے سفرکی ہدایات دینا شروع کیں تو عادل نے اکتاہٹ بھرے لہجے میں کہا کہ، ابو جان،’’میں ہزار مرتبہ یہ ہدایات سن چکا ہوں ۔‘‘
ٹرین کے روانہ ہونے سے ایک لمحہ پہلے، اس کے والد اس کے قریب آئے اور اس کے کان میں سرگوشی کی ،’’یہ لو، اگر تم خوفزدہ ہو یا پریشان تو یہ تمہارے لیے ہے‘‘ یہ کہہ کرعادل کی جیب میں کچھ ڈال دیا۔وہ پہلی بار والدین کے بغیر ٹرین میں بیٹھا تھا۔
کچھ دیر وہ کھڑکی سےباہر کے مناظر دیکھتا رہا اور اپنے اردگرد بیٹھے لوگوں کا شور سنتا رہا ،کبھی اپنی سیٹ سے اٹھ کر کیبن سے باہر نکلتا تو کبھی اندر چلاجاتا۔ یہاں تک کہ ٹرین کے ٹی ٹی نے بھی حیرانگی کا اظہار کیا اور اس سے اکیلے سفر بارے میں سوال کیا۔
اسی طرح ایک عورت نے اسے اداس دیکھ کر پوچھا،’’ تم اکیلے ہو۔‘‘عادل ان سوالوں سے شدید الجھن میں پڑ گیا، یہاں تک کہ اس نے محسوس کیا کہ اس کی طبیعت خراب ہورہی ہے، پھر وہ خوفزدہ ہو گیا، یہاں تک کہ وہ اپنی سیٹ سے گر گیا، اس کی آنکھیں آنسوؤں سے بھر گئیں۔ اسے اپنے امی ابو بہت یاد آرہے تھے اور وہ پشتا رہا تھا کہ اکیلے جانے کی ضد کیوں کی؟اسی لمحے اسے اپنے ابو کی سرگوشی یاد آئی جو انہوں نے ٹرین کے روانگی کے وقت کی تھی اور انہوں نے جیب میں کچھ ڈالا تھا۔
اس نے کانپتے ہوئے ہاتھ سے جیب میں تلاش کیا تو چھوٹا سا کاغذ ملا۔ اس نے اسے کھولا تو لکھا تھا، ’’بیٹا، میں ٹرین کے آخری ڈبے میں ہوں۔‘‘ یہ الفاظ پڑھتے ہی گویا اس کے جسم میں جان آگئی اور اس نے جان لیا کہ ماں باپ کا کہنا مانے میں ہی عافیت ہے۔
بچو! آپ بھی ہمیشہ والدین کا کہنا مانا کریں، کیوں کہ وہ ہمیشہ آپ کی بہتری کا سوچتے ہیں۔ والد آپ کے تحفظ کے احساس کا ذریعہ، ایک سائبان شفقت ہے، جس کے ہوتے ہوئے اولاد خود کو محفوظ سمجھتی ہے۔ زندگی کے سفر میں وہ آپ کبھی اکیلا نہیں چھوڑیں گے آخری کیبن میں ہمیشہ موجود ہوں گے۔