کراچی( نیوزڈیسک) یونان میں کشتی حادثے میں زندہ بچ جانے والے پاکستانیوں کا کہنا تھاکہ لوگ ڈوبے نہیں بلکہ جان بوجھ کر ڈبویا گیا، یونانی کوسٹ گارڈز نے بچانے کے بجائے لوگوں کے مرنے کا تماشا دیکھا۔
متاثرین کا کہنا تھاکہ لوگ دہائیاں دیتے رہے، مدد کو پکارتے رہے لیکن کوسٹ گارڈز والے کئی گھنٹوں تک لوگوں کو ڈوبتا دیکھتے رہے، مدد کو نہ آئے۔بی بی سی کا کہنا تھاکہ متاثرہ کشتی سات گھنٹے تک ایک ہی مقام پر کھڑی رہی، کسی نے بچانے کی کوشش نہیں کی۔
شواہد سامنے آنے کے بعد یونانی حکام نے مؤقف تبدیل کرلیا اور کہا کہ یونانی کوسٹ گارڈ نے کشتی پر اتر کر خطرے کا جائزہ لینے کی کوشش کی مگر کشتی والوں نے پھینکی گئی رسی کو ہٹا کر مدد لینے سے انکار کردیا۔
خیال رہے کہ یونان کے ساحلی علاقے میں 14جون بروز بدھ کو کشتی ڈوبنے کا حادثہ ہوا تھا۔شامی پناہ گزین ایاد نے بھی انکشاف کیا کہ یونانی کوسٹ گارڈز کئی گھنٹے تک ہمیں ڈوبتا دیکھتے رہے، بظاہر یونانی کوسٹ گارڈ کشتی ڈوبنے کا سبب تھے۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بچانےوالے یونانی کوسٹ گارڈ مارتے رہے کہ منہ بند رکھو۔پاکستان سے ایجنٹ اٹلی بھجوانے کیلئے بہتراور منصفانہ ماحول میں زندگی گزارنے کے خواہاں پاکستانی نوجوانوں سے 5 سے 7 ہزار ڈالر وصول کرتے ہیں، قانون کے مطابق سزا 14 سال ہے، سزا نہ ہونے کی بڑی وجہ مدعیوں کی عدم دلچسپی ہے۔
کشتی ڈوبنے سے 78 افراد ہلاک ہوئے جبکہ 104 کو بچا لیا گیا، کشتی میں پاکستانی، مصری، شامی اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے تقریباً 750 تارکین وطن سوار تھے۔
کشتی میں سوار پاکستانیوں کی تعداد سے متعلق متضاد اطلاعات ہیں، غیر ملکی میڈیا رپورٹس کے مطابق تعداد 400 کے قریب تھی، زندہ بچ جانے والوں نے سفارتی عملے کو بتایا کہ کم از کم 200 پاکستانی سوار تھے۔